Wednesday, June 13, 2012

‘‘بن لادن (رحمہ اللہ) کو شہید کیا ہے، القاعدہ کو نہیں’’

 بسم اللہ الرحمن الرحیم

انصاراللہ اردو

پیش کرتا ہے



شیخ اسامہ بن لادن رحمہ اللہ کا سب سے پہلا انٹرویو لینے والے

معروف عرب صحافی عبد الباری کے مضمون

کا اردو ترجمہ

‘‘بن لادن (رحمہ اللہ) کو شہید کیا ہے، القاعدہ کو نہیں’’

 

گزشتہ سال کے ایسے ہی ایک دن میں امریکی فوج نے اسلام آباد کے قریب واقع ایبٹ آباد میں موجود ایک درمیانے متواضع گھر پر حملہ کرکے اس میں رہنے والے شیخ اسامہ بن لا دن، ان کے بیٹے خالد، ان کے دو مددگاروں اور دو خواتین (رحمہم اللہ جمیعا) کو پندرہ سال کے تعاقب اور پیچھا کرنے کے بعد شہید کرنے میں کامیاب ہوئی۔

امریکی صدر اوباما نے اس واقعہ کی بناء پر القاعدہ اور اس کے امیر پر کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے۔ اور اس کی کوشش یہ ہے کہ وہ اپنے دور حکومت میں حاصل ہونے والی صرف اس ایک کامیابی کو دوبارہ صدر بننے کے لیے انتخابی مہم میں استعمال کرے۔ لیکن یہ کامیابی کا دعوی ایسا ہے کہ خود صدر اوباما کے علاوہ امریکہ کو تنظیم القاعدہ اور اس کے حملوں کی صورت میں اس کی بہت بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔


شیخ اسامہ بن لادن(رحمہ اللہ) اپنے پیروکاروں کے ذہنوں میں ہیرو ہیں اور ان کے پیروکار پورے عالم اسلام کے طول وعرض میں پھیلے ہوئے ہیں۔ امریکی حکومت بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہے۔ اسی وجہ سے تو امریکہ نے شیخ اور ان کے بیٹے کو بحیرہ عرب میں دفن کیا۔ ایبٹ آباد میں موجود ان کے گھر کو اس خوف سے مسمار کرادیا کہ کہیں یہ گھر زیارت گاہ نہ بن جائے، جہاں ان کے حامی ومددگار ہرسال آکر اس گھر کی زیارت کرنے لگیں۔ شیخ اسامہ بن لادن(رحمہ اللہ) وہ شخصیت تھے، جنہوں نے امریکہ کے آگے ’’نہیں‘‘ کہا۔ امریکہ کو اس کے گھر کے اندر نشانہ بنایا اور براہ راست یا بالواسطہ امریکہ کو افغانستان اور عراق میں ذلت آمیز شکست سے دوچار کیا۔ شیخ اسامہ(رحمہ اللہ) نے امریکہ کو دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ میں غرق کرکے سات ہزار سے زائد امریکی فوجیوں کی ہلاکت اور ہزاروں امریکی فوجیوں کے زخمی ہونے کا نقصان اٹھانے پر مجبور کیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ شیخ اسامہ(رحمہ اللہ) نے امریکہ کو ایک ارب ڈالرز کے نقصان سے دوچار کیا اورنقصان کا یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے، جو امریکی اقتصادی ماہرین کے اندازوں کے مطابق موجودہ نقصان سے پانچ گنا زیادہ (یعنی پانچ ارب ڈالرز) تک پہنچ جائے گا۔


شیخ اسامہ بن لادن(رحمہ اللہ) کی شہادت سے تنظیم اور اس کی سرگرمیوں کا متاثر ہونا ایک فطری بات ہے، کیونکہ شیخ(رحمہ اللہ) اپنے پیروکاروں کے لیے تواضع وانکساری رکھنے، ٹھوس ایمانی عقیدے کے حامل ہونے اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے (
اسلام اورمسلمانوں کے مقدسات کے دفاع پر مبنی) موقف پر ڈٹ کرجہاد کرنے والے تھے۔ قابل غور بات تو یہ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں تنظیم القاعدہ نے اس قدر ترقی کی ہے کہ اس کے انتظامی امور کو براہ راست چلانے کے لیے اپنے امیر کی ضرورت نہیں رہی، خواہ اس وقت جب وہ افغانی پاکستانی قبائلی علاقوں کے کسی غار میں رہ رہے تھے یا پھر اس وقت جب بعد میں وہ وہاں سے ایبٹ آباد منتقل ہوگئے تھے۔

تنظیم القاعدہ ایک تنا آور گھنے درخت کے مانند ہوچکی ہے جس کی ٹہنیاں اور شاخیں پوری فضا میں پھیل چکی ہیں، جبکہ اس کی مضبوط جڑیں زمین کے نیچے پھیلی ہوئی پیوست ہیں۔ اس درخت میں سے کسی ایک شاخ یا زائد شاخوں کو، خواہ وہ کس قدر بڑی ہی کیوں نہ ہو (
بن لادن یا العولقی (رحمہما اللہ ) کی صورت میں) کاٹنے سے درخت کی جڑیں کمزور نہیں پڑتی ہیں۔ ویسے بھی القاعدہ کی جڑوں کو کمزور کرنا انتہائی مشکل ہے کیونکہ وہ مظالم اور امیدوں کا مرکب ہیں۔ اسی وجہ سے امریکہ، عرب اور غیر ملکی ایجنسیوں کو تنظیم القاعدہ کیخلاف دس سال سے جاری جنگ میں کامیابی حاصل نہیں ہورہی اور انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

القاعدہ کے نئے کمانڈر اپنے سابقہ کمانڈر ساتھیوں، اپنی تاریخی باپوں اور پہلی نسل کے قائدین کی نسبت زیادہ سخت فعال جنگجو ہیں۔ انہیں حالات کا زیادہ علم ہے اور وہ بصیرت اور شعور کا پورا ادراک رکھتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر خطرناک بات تو یہ ہے کہ وہ مغرب، بالخصوص امریکہ سے سخت دشمنی رکھتے ہیں اورعرب خطے اورعالم اسلام میں موجود ان کے ایجنڈوں کے سخت مخالف ہیں۔


شیخ اسامہ بن لادن(رحمہ اللہ) کی قیادت میں ان کے نائب امیر ڈاکٹر ایمن الظواہری(حفظہ اللہ) نے تنظیم میں اس قدر ڈویلپمنٹ اور بہتری کی ہے کہ القاعدہ کو عالم اسلام میں پھیلی ہوئی میدانی تنظیموں کے ایک نیٹ ورک جال میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس طرح القاعدہ پہلے سے بھی زیادہ مضبوط اور خطرناک بن چکی ہے۔ گزشتہ دس سالوں میں ڈاکٹر ایمن الظواہری(حفظہ اللہ) نے القاعدہ کی مختلف شاخیں مغرب اسلامی، (عرب وافریقہ کے) صحراء کبری اور صومالیہ میں قائم کیں۔ جبکہ عراق کی شاخ کو ازسرنومرتب کرکے نئی بنیادوں پر اس کی تنظیم کو قائم کیا۔ نیز صومالیہ کو اپنی اسلامی امارات کا عملی نمونہ بنایا۔ ان سب سے بڑھ کر یمن اور صوبہ شبوہ میں القاعدہ کی ایک ایسی قیادت کو تشکیل دیا جو افغانستان کے قبائلی علاقوں میں موجود القاعدہ کی مرکزی قیادت کے مساوی ہے۔


اس کےعلاوہ تنظیم کی کم حیثیت والی کئی شاخیں اور ہیں جو اس وقت آرام کے مرحلے میں ہے۔ یہ شاخیں غزہ پٹی، لبنان، شمالی مالی اور نائیجیریا(بوکوحرام) ملکوں میں موجود ہیں۔ عنقریب شام میں بھی القاعدہ کی ایک نئی شاخ ہوگی، بلکہ شام میں بھی نمودار ہوچکی ہے اور امریکہ بھی شام میں القاعدہ کی شاخ کی موجودگی کی تصدیق سرکاری طور پرکرچکا ہے۔ نیز لیبیا ملک میں تو القاعدہ کی موجودگی کو ہمیں نہیں بھلانا چاہیے کیونکہ وہاں القاعدہ کے جھنڈے کئی شہروں اور مختلف علاقوں پر لہراتے ہوئے ہر کسی کو دکھائی دیں رہے ہیں۔

تنظیم القاعدہ نے اب تک تین ایسی بڑی کامیابیاں حاصل کیں ہیں جو مغرب کے لیے انتہائی باعث تشویش ہیں:

اول: بحر ہند، صومالیہ اور جنوبی یمن کے بین الاقوامی ملاح گیری کے راستوں کا کنٹرول القاعدہ کے ہاتھوں میں آگیا ہے۔ القاعدہ نے بین الاقوامی ملاح گیری کے راستوں پر اپنا قبضہ زنجبار (جواسلامی امارت بننے کے قریب ہے) میں اپنا کنٹرول قائم کرکے کیا ہے۔ گزشتہ پانچ سالوں میں دو سو کشتیاں اور تیل بردار جہازوں کو اغواء کیا گیا جبکہ فدیے کے طور پر القاعدہ نے 300ملین ڈالرز وصول کیے۔ دوم: القاعدہ کا جہاں جزیرۂ عرب میں تیل کے کنویں اور اس کے ذخائر سے قریب تر ہونا ہے، وہاں لیبیا اور عراق میں بھی اس سے کم درجے پر تیل کے کنویں اور اس کے ذخائر سے ان دونوں ملکوں میں اپنی مضبوط شاخیں قائم کرکے ان سے قریب تر ہونا ہے۔ سوم: القاعدہ کا مغرب اسلامی اور افریقی صحراء کے ساحلی ملکوں میں موجود اپنی خطرناک شاخوں کے ذریعے سے کثیر مقدار میں اسلحہ، جنگی سازو سامان، طیارہ اور ٹینک شکن میزائلوں کو حاصل کرنا ہے۔ نیز القاعدہ کا اپنی مادی صلاحیتوں کو مزید مستحکم کرنے کے لیے یورپی سیاحوں کو گرفتار کرنا اور ان میں سے بعض مغویوں کو کئی ملین ڈالرز حاصل کرنے کے عوض رہا کرنا ہے۔

عرب انقلابات کی بہار نے اچانک آکر القاعدہ کو حیران کرڈالا۔ بعض لوگوں کا دعوی ہے کہ عرب انقلابات میں القاعدہ کا کوئی کردار نہیں تھا۔ اس دعوی میں کافی حد تک سچائی نظر آتی ہے، مگر ایک بات طے شدہ ہے کہ عرب بہار اور اس کے انقلابات سے طویل مدت تک فائدہ اٹھانے والی صرف القاعدہ ہی ہوگی۔ یہ فائدہ القاعدہ کو صرف لیبیا اور یمن جیسے بعض ملکوں میں بدامنی اورانتشار پھیلنے کی وجہ سے حاصل نہیں ہوگا بلکہ اس وجہ سے بھی ہوگا کہ انتخابات میں سلفی یا اخوانی اسلامی طاقتیں جیت رہی ہیں اور ان میں سے بعض طاقتیں اقتدار میں آنے کے بعد القاعدہ کیخلاف جنگ کو جاری رکھنے میں تذبذب کا شکار ہونگی۔


عرب ممالک کے تعاون سے مغربی ممالک اور بالخصوص امریکہ عرب انقلابات کو ناکام بنانے کی کوششیں کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ کسی طرح دوبارہ عرب عوام ماضی کی طرح امریکہ کی گود میں آجائے۔ اسرائیل کے ساتھ عرب ملکوں کے امن معاہدے کو برقرار رکھنے کی خاطر مغرب اور امریکہ نے مالی امداد کے لیے سخت شرائط عائد کرنے کا جو اقدام اٹھایا ہے (جیسا کہ مصر اور تیونس کے ساتھ ہورہا ہے)، اس سے صرف اسلامی جہاد اور القاعدہ جیسی تنظیموں کو فائدہ پہنچے گا، اگرچہ یہ اقدام خودبراہ راست القاعدہ کے مفاد میں کیوں نہ ہو۔


تنظیم القاعدہ کے نئے قائدین پریکٹیکل اور عملی طریقوں سے سوچتے ہیں اور انہوں نے تنظیم القاعدہ کے نام کو مضبوطی سے تھامنے پر اصرار کرنا چھوڑدیا ہے۔ بلکہ اب تو وہ التوحید والجہاد، فتح الاسلام، توحید، نصرۂ، اسلامی ریاست عراق جیسے دوسرے ناموں کو ترجیح دیتے ہیں۔ ایسا وہ اس وجہ سے کررہے ہیں تاکہ وہ تعاقب سے بچ سکے اور گرفتاری کی صورت میں گوانٹانامو جیسے (القاعدہ کے لیے مختص) جیلوں میں جانے سے بچ سکے اور القاعدہ کے نام پر کھڑی ہونے والی مشکلات سے بچا جا سکے۔


ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ جو اب القاعدہ کے نئے امیر بن چکے ہیں، انہوں نے القاعدہ کو مرکزی تنظیم جس کا دار الحکومت نائن الیون کے حملوں سے پہلے تورا بورا تھا، اب انہوں نے القاعدہ کو ایسی عالمی آفاقی تنظیم میں تبدیل کردیا ہے۔ جس کے کئی مراکز اور متعدد شاخیں دنیا بھر میں ہیں۔ ہمیں ایسا لگتا ہے کہ شیخ ایمن الظواہری(حفظہ اللہ)، جن میں عربی دوراندیشی اور عربی پرورش ہونے کی وجہ سے وہ ممکن ہے کہ مستقبل قریب میں القاعدہ تنظیم کی آئیڈیالوجی کو ازسرنومرتب کریں اور اسرائیل کیخلاف اپنی عسکری کارروائیوں کو تیز کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔


ہمیں یہاں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ ڈاکٹر ایمن الظواہری(حفظہ اللہ) ماضی میں تنظیم الجہاد کے امیر تھے۔ یہ تنظیم وہ ہے جس نے (
مصری صدر) سادات کو اسرائیل کے ساتھ کیمپ ڈیوڈ معاہدہ کرنے کی وجہ سے ہلاک کیا تھا۔

پھر ایسے اشارے بھی مل رہے ہیں کہ القاعدہ تنظیم، خواہ مختلف ناموں کے ذریعے سے مصر میں اسرائیل کی سرحد کے قریب واقع سیناء کے صحراؤں میں دوبارہ سرگرم اور منظم ہورہی ہیں۔ اسرائیل جانے والی مصری گیس پائپ لائن کو 14 مرتبہ تباہ کرنے کی ذمہ دار بھی القاعدہ ہی تھی اور ڈاکٹر ایمن الظواہری کی ہدایات پر ہونے والے ان حملوں کی وجہ سے اسرائیل کے لیے مصری گیس کی سپلائی لائن ان حملوں کے بعد اب مکمل طور پر بند ہوچکی ہے۔


جو لوگ یہ سوچ رکھتے ہیں کہ القاعدہ کے جنگی اور میدانی کمانڈر اور عام کارکن سپاہی کم پڑھے لکھے ہیں، تو ان کی یہ سوچ مکمل طور پر غلط اور حقائق کے منافی ہے۔ ہماری اس بات کی تصدیق ڈاکٹر انور العولقی کی ایک واضح مثال سے ہوتی ہے۔ القاعدہ کے نئے قائدین اور کمانڈرز اعلی تعلیم وتربیت یافتہ ہیں اور ان میں سے اکثر نے مغربی یونیورسٹیوں میں پڑھا اور وہاں سے تعلیم حاصل کیں ہیں۔
اس کی تصدیق کے لیے القاعدہ کے دیوہیکل وسیع میڈیا نیٹ ورک، انٹرنیٹ پر پھیلی ہوئی ان کی ویب سائٹوں اور رابطے کے جدید وسائل کو ہی دیکھ لو۔ اب القاعدہ کو اپنی بات پہنچانے کے لیے الجزیرہ ٹی وی یا کسی اور کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔

امریکہ نے بالواسطہ طور پر عراق اور افغانستان میں اپنی شکست کا اعتراف کرلیا ہے۔ اسی طرح الیکٹرونک جہاد کیخلاف جاری جنگ میں بھی امریکہ نے اپنی شکست کا ضمنی طور پر اعتراف کرلیا ہے اور اس بات کو قبول کیا ہے کہ القاعدہ تنظیم کے دماغوں نے امریکی انٹیلی جنس کے اداروں پر برتری حاصل کرلی ہیں۔


شیخ اسامہ بن لادن(رحمہ اللہ) تو رفیق اعلی سے جاملے ہیں، لیکن وہ امریکیوں کو اپنے مرنے کے بعد بھی اسی طرح خوفزدہ کررہے ہیں جس طرح انہوں نے اپنی زندگی میں انہیں خوف میں مبتلا کررکھا تھا۔ امریکہ نے بھی اسی وجہ سے انہیں سمندر میں دفن کیا۔ لیکن شیخ اسامہ(رحمہ اللہ) اپنے پیچھے ایک ایسی آئیڈیالوجی اور طاقتور تنظیم چھوڑ کر گئے ہیں، جس کا وجود صرف انٹرنیٹ پر نہیں بلکہ ان لوگوں کے ذہنوں میں بھی موجود ہیں۔ جو عالم اسلام میں امریکی اور مغربی اجارہ داری کے ہتھکنڈوں سے سخت نفرت رکھتے ہیں۔


جب تک عرب اور مسلمانوں کی تذلیل وتوہین کا سلسلہ جاری رہے گا، اس وقت تک القاعدہ کے بڑھنے اور پھیلنے کا سلسلہ بھی جاری رہے گا۔ القاعدہ کو اگر کہیں کوئی ناکامی کا سامنا کرنا بھی پڑا تو ان کی جگہ لینے والے دوسرے لوگ بھی موجود ہیں جو مختلف ناموں سے اس سلسلے کو جاری رکھیں گے۔ القاعدہ کو شکست دینے کا (امریکی) دعوی ہمارے نزدیک مشکوک ہے کیونکہ مستقبل قریب میں اس کے ایسے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے۔



اخوانکم فی الاسلام

No comments:

Post a Comment

اپنے تبصرے یہاں لکھیں