Tuesday, June 19, 2012

شربت وشکر :: شیخ قائد ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے قلم سے

بسم الله الرحمن الرحيم
شربت وشکر
شیخ قائد ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے قلم سے

ترجمہ: انصاراللہ اردو ٹیم

معزز قاری حضرات کو اس بات پرتعجب وحیرانگی ہوسکتی ہے کہ میں اس عنوان کے تحت ایک ایسی نشریاتی اشاعت میں لکھ رہا ہوں جس میں جنگ وقتال، تعذیب وتشدد، بکھرے ہوئے انسانی اعضاء، سیاسی غداری اور حکومتی فساد وکرپشن کے معاملات کو زیربحث لایا جاتاہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی قاری کے ذہن میں یہ خیال بھی آئے کہ یہ موضوع کسی مزاحیہ جریدے یا ادبی رسالے یا بچوں کے میگزین میں شائع ہوتا تو زیادہ مناسب تھا!!
لیکن میں نے معزز قاری کی توجہ کچھ بنیادی حقائق کی طرف مبذول کرانےکے لئے اس کا انتخاب کیا ہے جس کو دھماکوں، قتال، تعذیب وتشدد اور بجلی کے جھٹکے کے دوران سمجھنا اسلامی جہادی تحریک کے لئے ضروری ہے۔
میں معزز قاری کے سامنے بات کو طول دینے کی بجائے فوراً اپنے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہتاہوں کہ:

تین سال کاعرصہ جیل میں گزارنے کے بعد جب میں باہر آیا تو میرے گھر پر رشتہ دار اور پڑوسی بڑی تعداد میں مبارکباد دینے کے لئے آئے۔ ہمیشہ کی طرح یہ مبارکباد دینے والے شکر اور شربت۔۔۔۔ اور مختلف قسم کے کھانے اور تحفے لیکر آئے۔ لیکن ان زائرین میں سے تین ایسے مبارکباد دینے والے بھی تھے جنہیں میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔
ان تینوں میں سے پہلا شخص:
ایک معمولی سا آدمی تھا جو میرے پرائمری اسکول میں باغبان کی حیثیت سے کام کرتاتھا۔ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کر شہر میں ہماری سڑک کے قریب گلی میں ایک درمیانے گھر میں رہائش پذیر تھا۔ وہ وقفہ وقفہ سے ہمارے خاندان کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔ پھر وہ ہم سے کچھ عرصے کے لیے منقطع ہوگیا اور اس کے بعد اس وقت نظر آیا جب میں جیل سے رہا ہوا تو وہ مجھے مبارکباد دینے کے لیے شکر اور شربت کی بوتلیں لیکر آیا تھا۔
ان تینوں میں سے دوسرا:
ایک غریب عورت تھی جو میرے پرائمری اسکول میں کام کرتی تھی۔ وہ بھی ہماری شاہراہ پر ہی رہتی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کئی سالوں میں ا ُسے کبھی دیکھا ہو بلکہ میں تو اس بات سے بھی ناواقف تھا کہ وہ ہماری سڑک پر ہی رہتی ہے۔ جب میں جیل سے باہر نکلا تو اُس کی وجہ سے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ میرے لیے شکر اور شربت لے کرآئی تھی۔ مجھے اُس سے پتہ چلا کہ وہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ اسے کٹوانے پڑے، جبکہ اسکے ایک قریبی عزیز کو بھی اسلام کی طرف میلان رکھنے کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا۔
ان تینوں میں تیسراشخص:
ایک تیمادار ملازم تھا جومیری گرفتاری سے پہلے میرے کلینک پر کام کرتا تھا۔ اس سیدھے سادھے اور بہادر شخص کی شخصیت ایسے مصری انسان کی تصویر کشی کرتی ہے جس کو زندگی کی مشکلات نے پیس کر رکھ دیاہو۔ وہ صبح کے وقت ایک حکومتی ہسپتال میں باورچی کے معاون کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ وہ گردے کی پتھری کے عارضہ میں مصرکے ایک نمایاں نشان ’’بلھارسیا‘‘ (کیڑوں یا فَلوکَس کا ایک جنس جو آدمی پرحملہ کرتا ہے) کی وجہ سے مبتلا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کرعوامی آبادی والے علاقے میں زیر زمین ایک کمرہ میں رہ رہا تھا جس میں وہ اور اس کا بڑا خاندان پھنس پھنس کے رہ رہے تھے۔ اس بہادر آدمی کو میری وجہ سے ایسی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جن کا ذکر کرنا بھی محال ہے۔ اس شخص کو بھی میری گرفتاری کے بعد حراست میں لے لیا گیا، پھر ایجنسیوں نے اُس پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ میرے اور مجاہد بھائیوں کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔ مزید برآں اُس سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اُن مجاہدین کے نام بتائے جن کو وہ جانتا ہے۔ اس بیچارے نے یونہی اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی کہ اُس کی بیچاری بیوی کو جب اُس کی گرفتاری کاعلم ہوا تو وہ اُس کے متعلق پوچھ گچھ کرنے(
ایجنسیوں والوں کے پاس) گئی تو انہوں نے اسے بھی پکڑ کر شعبہ پولیس میں مجرموں اور بدکردار عورتوں کے ساتھ قید کردیا۔

اس معزز شخص کو میری وجہ سے پہنچنے والی ان تمام تکالیف اور مصیبتوں کے باوجود، میں نے اپنی رہائی کے وقت اسے مبارکباد دینے والوں میں پایا۔ وہ اپنے ساتھ شربت اور شکر لے کر آیا تھا گویا کہ اُس کو میرے کلینک پر کام کرنے کی وجہ سے کچھ ہواہی نہیں ہو۔

بلکہ وہ تو کئی مرتبہ میرے کلینک پر مسلسل میری زیارت کی خاطر آتا جاتا رہا اور پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے کی پرواہ کیے بغیر میرے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتا رہا۔ جبکہ پولیس خفیہ اور اعلانیہ طور پرمیری نگرانی کررہی تھی اور نظر بندی کے قانون کے تحت رکھنے کی وجہ سےغروب آفتاب سے سورج نکلنے تک میں گھر پر رہنے کا پابند تھا اور ہر رات مجھ سے تحقیق و تفتیش کی جاتی تھی۔۔۔ اس طرح کی دیگر پابندیاں مجھ پرعائد تھی اور ان پابندیوں کو ہر مسلم مجاہد نوجوان اپنے دل سے یاد رکھتا ہے۔

مصر میں مسلمانوں پر ہونے والے حکومت کے ظلم وستم، تشدد اور تکلیفوں سے ہر کوئی باخوبی واقف ہے، مگر ان سیدھے سادے لوگوں نے اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں کی اور وہ مجھے مبارکباد دینے چلے آئے، حالانکہ وہ اس بات کواچھی طرح جانتے تھے کہ اُنہیں ان شربت اور شکر کے بدلے میں توہین اور ہراساں کرنے کی صورت میں اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

ان سادہ لوگوں کے مدمقابل کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو جیل سے رہائی پر مجھے مبارکباد دینے کو اس لئے نظر انداز کرتے ہیں کہ کوئی اُنہیں ملامت نہ کرے۔۔۔ مجھے اپنا ایک کلاس فیلو یاد آتا ہے، ہم دونوں ہم جماعت رہے یہاں تک کہ ہم نے کالج سے فراغت حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، ایک دن بھی مشکل سے ایسا نہیں گزرتا تھا کہ میں نے اس کلاس فیلو کو نہ دیکھا ہو یا اُس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہ کیا ہو۔ لیکن جیسے ہی اس نے سنا کہ میں گرفتار ہوگیا ہوں تو اس نے میرے ساتھ قائم اپنا گہرا رشتہ توڑ ڈالا۔

آج میری گرفتاری کو چودہ سال ہوچکے ہیں، اس عرصہ کے دوران میں بھی مختلف ممالک میں منتقل ہوتا رہا اور وہ بھی منتقل ہوتا رہا، اُس نے پیشے میں ترقی کی حتی کہ وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر کے درجہ پر فائز ہوگیا۔ ان تمام سالوں میں خواہ جو میری گرفتاری کاعرصہ ہو یا اُسکے بعد کا یا پھر مصر میں قیام کے دوران یا وہاں سے نکلنے تک کا عرصہ، اُس نے ایک لفظ بھی میری طرف نہیں بھیجا۔ یقینی بات ہے کہ میں نے بھی اُس سے کسی بھی قسم کا رابطہ کرکے اس پر بوجھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
مجھے ایک مشہور مبلغ بھی یاد آتا ہے۔ وہ ہمارے علاقہ میں ہی رہتا تھا اور ظاہری ہدایت کی نشانیوں کو دکھلانے میں لگا رہتا تھا۔ مثلا داڑھی، لاٹھی، پگڑی، اور قمیص۔۔۔۔ وغیرہ۔ یہ مشہور مبلغ مجھے بہت قریب سے جانتا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد راستے میں اس سے آمنا سامنا ہوا اور اُس نے مجھے دیکھا بھی لیکن وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس طرح چلا گیا کہ گویا کہ میں کوئی بھوت ہوں۔ اس مبلغ کا انجام یہ ہوا کہ وہ قومی اسمبلی میں شامل ہوگیا اور حسنی مبارک کی بطورمسلمانوں کے امام بیعت کرلی!!!
ان قابل عزت سادہ غریب افراد اور اُن سلامتی کے لالچیوں کے درمیان بہت واضح تقابل میرے ذہن میں گردش کررہا ہے۔

ان سادہ لوگوں کی تصویر مجھے ہر روز مسلسل اسلامی تحریک کی اس اچھی عوام کے ساتھ گھل ملنے میں کوتاہی کی یاد دلاتی ہے، جو لاکھوں کی تعداد میں اس طرح کے پاکیزہ نمونے رکھتے ہیں کہ مجاہدین کے لئے اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کرنے میں بڑے حریص ہیں اور جو اُن سے بدلہ اور شکریہ کے خواہشمند بھی نہیں۔

تو کیا ہم ان اچھے لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں کہ ہم انہیں سمجھائیں کہ مجاہدین ان ہی کے دین کے دفاع کے لئے قتال کررہے ہیں اور ان ہی کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے لڑرہے ہیں۔

اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اُن کے شربت اور شکر جیسے تحائف کا بہترین بدلہ ہوگا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
ازقلم قائد شیخ ایمن الظواہری کے قلم سے
بشکریہ میگزین "المجاهدون" تعداد: 18/ پہلا سال

No comments:

Post a Comment

اپنے تبصرے یہاں لکھیں