Friday, June 22, 2012

افغان بچےنےامریکی کوہنسیاسےمارڈالا

افغان بچےنےامریکی کوہنسیاسےمارڈالا


ذبیح اللہ مجاہد



Thursday, 02 Sya'ban 1433
جمعرات, 21 جون 2012 20:38

افغان بچےنےاپنی اسلامی اورافغانی جذبےکی بنیادپرصوبہ ننگرہارضلع خوگیانی میں امریکی فوجی پرہنسیاکاوارکرکےاسےہمیشہ کےلیے جہنم رسید کیا۔

آمدہ رپورٹ کےمطابق جمعہ کےروز2012-06-21مقامی وقت کےمطابق شام چاربجے جارح فوجیں ضلعی مرکزکےقریب سرمئی گاؤں میں پیدل گشت کررہاتھاکہ ایک بااحساس بچے نشاط ولدسرمعلم محمدعظیم نےاسلامی وجہادی جذبےکی بنیادہنسیاSickleکا وار کرکےاسے موت کےگھاٹ اتاردیا اورغازی بچہ مجاہدین تک پہنچنےمیں کامیاب ہوا۔
اس بچےایسےوقت میں وحشی فوجوں کفرشکن حملہ کیا،جب امریکیوں کوامیدہےکہ افغانوں کوتابع بنائينگے اوران چندزرخرید ڈالروں کے غلاموں کی مانندافغان عوام امریکی جارحیت کوقبول کریگی،لیکن اس ہیروکی فداکاری اوراسلامی احساس نےواضح کردی،کہ افغان عمر کےجس سطح پرہو،بیرونی جارحیت کواچھی طرح جانتےہیں اورہرمناسب وقت میں اپنےاسلاف کی یادہ تازہ کرتی ہےاورغاصبوں پر برا وقت لاسکتاہے۔
واضح رہےکہ چندسال قبل بھی مذکورہ ضلع کےمملہ کےعلاقے میں ایک بچےنےاسی نوعیت حملےسےایک امریکی کومارڈالاتھا۔
عینی شاہدین کاکہناہےکہ واقعہ کےبعدلاش کوہیلےکاپٹرکےذریعےمنتقل کیےگئے۔
غاصب فوجوں کےخلاف افغان عوام میں نفرتوں کاسلسلہ عروج کوپہنچاہے،جن سےکم عمربچےبھی نفرت کرکےانہیں نشانہ بنارہے ہیں۔
ذبیح اللہ مجاہد
ترجمان امارت اسلامیہ افغانستان

سیدآباد،کانوائےپرحملہ،25سکیورٹی ہلاک

سیدآباد،کانوائےپرحملہ،25سکیورٹی ہلاک
ذبیح اللہ مجاہد

Thursday, 02 Sya'ban 1433

جمعرات, 21 جون 2012 20:10


tankerنیٹوسپلائی کانوائےپرامارت اسلامیہ کےمجاہدین نے صوبہ میدان وردک ضلع سیدآبادمیں حملہ کیا،جس میں دشمن کوبھاری جانی ومالی نقصانات کا سامناہوا۔


موصولہ رپورٹ کےمطابق جمعرات کےروز2012-06-21 مقامی وقت کےمطابق سہ پہرتین بجے مجاہدین نے اوتڑيو اورہفت آسیا کےعلاقوں میں ایک ہی جارح فوجوں کی سپلائی کانوائے پرہلکےوبھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا،جس کےنتیجے میں پانچ سپلائی گاڑیاں مکمل طوپرتباہ جبکہ اٹھارہ کو نقصان پہنچا۔

ذرائع کےمطابق گھات کی صورت میں کی جانےوالےحملےمیں 15سکیورٹی اہلکاراور10 ڈرائیورہلاک جبکہ 17سکیورٹی اہلکاراور ڈرائیور زخمی ہوئيں۔

نیزجمعرات کےروزمقامی وقت کےمطابق سہ پہرڈيڑھ بجےہفت آسیاکےعلاقے میں مجاہدین نے کٹھ پتلی فوجوں کی پیدل پارٹی پر حملہ کیا، جس میں 2 فوجی زخمی ہوئيں۔


آخری تازہ کاری ( Friday, 02 Sya'ban 1433 08:12 )

Tuesday, June 19, 2012

شربت وشکر :: شیخ قائد ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے قلم سے

بسم الله الرحمن الرحيم
شربت وشکر
شیخ قائد ڈاکٹر ایمن الظواہری حفظہ اللہ کے قلم سے

ترجمہ: انصاراللہ اردو ٹیم

معزز قاری حضرات کو اس بات پرتعجب وحیرانگی ہوسکتی ہے کہ میں اس عنوان کے تحت ایک ایسی نشریاتی اشاعت میں لکھ رہا ہوں جس میں جنگ وقتال، تعذیب وتشدد، بکھرے ہوئے انسانی اعضاء، سیاسی غداری اور حکومتی فساد وکرپشن کے معاملات کو زیربحث لایا جاتاہے۔ ہوسکتا ہے کہ کسی قاری کے ذہن میں یہ خیال بھی آئے کہ یہ موضوع کسی مزاحیہ جریدے یا ادبی رسالے یا بچوں کے میگزین میں شائع ہوتا تو زیادہ مناسب تھا!!
لیکن میں نے معزز قاری کی توجہ کچھ بنیادی حقائق کی طرف مبذول کرانےکے لئے اس کا انتخاب کیا ہے جس کو دھماکوں، قتال، تعذیب وتشدد اور بجلی کے جھٹکے کے دوران سمجھنا اسلامی جہادی تحریک کے لئے ضروری ہے۔
میں معزز قاری کے سامنے بات کو طول دینے کی بجائے فوراً اپنے مقصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہتاہوں کہ:

تین سال کاعرصہ جیل میں گزارنے کے بعد جب میں باہر آیا تو میرے گھر پر رشتہ دار اور پڑوسی بڑی تعداد میں مبارکباد دینے کے لئے آئے۔ ہمیشہ کی طرح یہ مبارکباد دینے والے شکر اور شربت۔۔۔۔ اور مختلف قسم کے کھانے اور تحفے لیکر آئے۔ لیکن ان زائرین میں سے تین ایسے مبارکباد دینے والے بھی تھے جنہیں میں کبھی نہیں بھلا سکتا۔
ان تینوں میں سے پہلا شخص:
ایک معمولی سا آدمی تھا جو میرے پرائمری اسکول میں باغبان کی حیثیت سے کام کرتاتھا۔ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کر شہر میں ہماری سڑک کے قریب گلی میں ایک درمیانے گھر میں رہائش پذیر تھا۔ وہ وقفہ وقفہ سے ہمارے خاندان کے ساتھ رابطے میں رہتا تھا۔ پھر وہ ہم سے کچھ عرصے کے لیے منقطع ہوگیا اور اس کے بعد اس وقت نظر آیا جب میں جیل سے رہا ہوا تو وہ مجھے مبارکباد دینے کے لیے شکر اور شربت کی بوتلیں لیکر آیا تھا۔
ان تینوں میں سے دوسرا:
ایک غریب عورت تھی جو میرے پرائمری اسکول میں کام کرتی تھی۔ وہ بھی ہماری شاہراہ پر ہی رہتی تھی۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کئی سالوں میں ا ُسے کبھی دیکھا ہو بلکہ میں تو اس بات سے بھی ناواقف تھا کہ وہ ہماری سڑک پر ہی رہتی ہے۔ جب میں جیل سے باہر نکلا تو اُس کی وجہ سے بڑی حیرت ہوئی کہ وہ میرے لیے شکر اور شربت لے کرآئی تھی۔ مجھے اُس سے پتہ چلا کہ وہ چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہوئی جس کی وجہ سے وہ اسے کٹوانے پڑے، جبکہ اسکے ایک قریبی عزیز کو بھی اسلام کی طرف میلان رکھنے کی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا۔
ان تینوں میں تیسراشخص:
ایک تیمادار ملازم تھا جومیری گرفتاری سے پہلے میرے کلینک پر کام کرتا تھا۔ اس سیدھے سادھے اور بہادر شخص کی شخصیت ایسے مصری انسان کی تصویر کشی کرتی ہے جس کو زندگی کی مشکلات نے پیس کر رکھ دیاہو۔ وہ صبح کے وقت ایک حکومتی ہسپتال میں باورچی کے معاون کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ وہ گردے کی پتھری کے عارضہ میں مصرکے ایک نمایاں نشان ’’بلھارسیا‘‘ (کیڑوں یا فَلوکَس کا ایک جنس جو آدمی پرحملہ کرتا ہے) کی وجہ سے مبتلا تھا۔ وہ اپنے گاؤں کو چھوڑ کرعوامی آبادی والے علاقے میں زیر زمین ایک کمرہ میں رہ رہا تھا جس میں وہ اور اس کا بڑا خاندان پھنس پھنس کے رہ رہے تھے۔ اس بہادر آدمی کو میری وجہ سے ایسی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا جن کا ذکر کرنا بھی محال ہے۔ اس شخص کو بھی میری گرفتاری کے بعد حراست میں لے لیا گیا، پھر ایجنسیوں نے اُس پر یہ الزام عائد کیا کہ وہ میرے اور مجاہد بھائیوں کے درمیان پیغام رسانی کا کام کرتا ہے۔ مزید برآں اُس سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ اُن مجاہدین کے نام بتائے جن کو وہ جانتا ہے۔ اس بیچارے نے یونہی اُنہیں سمجھانے کی کوشش کی کہ اس کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ اس سے بڑی مصیبت کیا ہوگی کہ اُس کی بیچاری بیوی کو جب اُس کی گرفتاری کاعلم ہوا تو وہ اُس کے متعلق پوچھ گچھ کرنے(
ایجنسیوں والوں کے پاس) گئی تو انہوں نے اسے بھی پکڑ کر شعبہ پولیس میں مجرموں اور بدکردار عورتوں کے ساتھ قید کردیا۔

اس معزز شخص کو میری وجہ سے پہنچنے والی ان تمام تکالیف اور مصیبتوں کے باوجود، میں نے اپنی رہائی کے وقت اسے مبارکباد دینے والوں میں پایا۔ وہ اپنے ساتھ شربت اور شکر لے کر آیا تھا گویا کہ اُس کو میرے کلینک پر کام کرنے کی وجہ سے کچھ ہواہی نہیں ہو۔

بلکہ وہ تو کئی مرتبہ میرے کلینک پر مسلسل میری زیارت کی خاطر آتا جاتا رہا اور پولیس کے ہاتھوں پکڑے جانے کی پرواہ کیے بغیر میرے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتا رہا۔ جبکہ پولیس خفیہ اور اعلانیہ طور پرمیری نگرانی کررہی تھی اور نظر بندی کے قانون کے تحت رکھنے کی وجہ سےغروب آفتاب سے سورج نکلنے تک میں گھر پر رہنے کا پابند تھا اور ہر رات مجھ سے تحقیق و تفتیش کی جاتی تھی۔۔۔ اس طرح کی دیگر پابندیاں مجھ پرعائد تھی اور ان پابندیوں کو ہر مسلم مجاہد نوجوان اپنے دل سے یاد رکھتا ہے۔

مصر میں مسلمانوں پر ہونے والے حکومت کے ظلم وستم، تشدد اور تکلیفوں سے ہر کوئی باخوبی واقف ہے، مگر ان سیدھے سادے لوگوں نے اس چیز کی کوئی پرواہ نہیں کی اور وہ مجھے مبارکباد دینے چلے آئے، حالانکہ وہ اس بات کواچھی طرح جانتے تھے کہ اُنہیں ان شربت اور شکر کے بدلے میں توہین اور ہراساں کرنے کی صورت میں اس کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑے گی۔

ان سادہ لوگوں کے مدمقابل کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو جیل سے رہائی پر مجھے مبارکباد دینے کو اس لئے نظر انداز کرتے ہیں کہ کوئی اُنہیں ملامت نہ کرے۔۔۔ مجھے اپنا ایک کلاس فیلو یاد آتا ہے، ہم دونوں ہم جماعت رہے یہاں تک کہ ہم نے کالج سے فراغت حاصل کر کے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، ایک دن بھی مشکل سے ایسا نہیں گزرتا تھا کہ میں نے اس کلاس فیلو کو نہ دیکھا ہو یا اُس نے مجھ سے کوئی رابطہ نہ کیا ہو۔ لیکن جیسے ہی اس نے سنا کہ میں گرفتار ہوگیا ہوں تو اس نے میرے ساتھ قائم اپنا گہرا رشتہ توڑ ڈالا۔

آج میری گرفتاری کو چودہ سال ہوچکے ہیں، اس عرصہ کے دوران میں بھی مختلف ممالک میں منتقل ہوتا رہا اور وہ بھی منتقل ہوتا رہا، اُس نے پیشے میں ترقی کی حتی کہ وہ ایک یونیورسٹی میں پروفیسر کے درجہ پر فائز ہوگیا۔ ان تمام سالوں میں خواہ جو میری گرفتاری کاعرصہ ہو یا اُسکے بعد کا یا پھر مصر میں قیام کے دوران یا وہاں سے نکلنے تک کا عرصہ، اُس نے ایک لفظ بھی میری طرف نہیں بھیجا۔ یقینی بات ہے کہ میں نے بھی اُس سے کسی بھی قسم کا رابطہ کرکے اس پر بوجھ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
مجھے ایک مشہور مبلغ بھی یاد آتا ہے۔ وہ ہمارے علاقہ میں ہی رہتا تھا اور ظاہری ہدایت کی نشانیوں کو دکھلانے میں لگا رہتا تھا۔ مثلا داڑھی، لاٹھی، پگڑی، اور قمیص۔۔۔۔ وغیرہ۔ یہ مشہور مبلغ مجھے بہت قریب سے جانتا تھا۔ جیل سے رہائی کے بعد راستے میں اس سے آمنا سامنا ہوا اور اُس نے مجھے دیکھا بھی لیکن وہ پلکیں جھپکائے بغیر اس طرح چلا گیا کہ گویا کہ میں کوئی بھوت ہوں۔ اس مبلغ کا انجام یہ ہوا کہ وہ قومی اسمبلی میں شامل ہوگیا اور حسنی مبارک کی بطورمسلمانوں کے امام بیعت کرلی!!!
ان قابل عزت سادہ غریب افراد اور اُن سلامتی کے لالچیوں کے درمیان بہت واضح تقابل میرے ذہن میں گردش کررہا ہے۔

ان سادہ لوگوں کی تصویر مجھے ہر روز مسلسل اسلامی تحریک کی اس اچھی عوام کے ساتھ گھل ملنے میں کوتاہی کی یاد دلاتی ہے، جو لاکھوں کی تعداد میں اس طرح کے پاکیزہ نمونے رکھتے ہیں کہ مجاہدین کے لئے اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کرنے میں بڑے حریص ہیں اور جو اُن سے بدلہ اور شکریہ کے خواہشمند بھی نہیں۔

تو کیا ہم ان اچھے لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں کہ ہم انہیں سمجھائیں کہ مجاہدین ان ہی کے دین کے دفاع کے لئے قتال کررہے ہیں اور ان ہی کی عزت وآبرو کی حفاظت کے لئے لڑرہے ہیں۔

اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ اُن کے شربت اور شکر جیسے تحائف کا بہترین بدلہ ہوگا۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
ازقلم قائد شیخ ایمن الظواہری کے قلم سے
بشکریہ میگزین "المجاهدون" تعداد: 18/ پہلا سال

نائیجیریا میں قید جرمنی قیدی کے ہلاک ہونے کی بابت بیان

تنظیم القاعدۂ برائے مغرب اسلامی :: نائیجیریا میں قید جرمنی قیدی کے ہلاک ہونے کی بابت بیان

بسم الله الرحمن الرحيم

تنظيم القاعدۂ برائے مغرب اسلامی
نائیجیریا میں قید جرمنی قیدی کے ہلاک ہونے کی بابت بیان
ترجمہ: انصار اللہ اردو ٹیم

الحمد لله وليّ الصَّالحين، والعاقبة للمتّقين ولا عدوان إلا على الظَّالمين، والصَّلاة والسّلام على المبعوث رحمة للعالمين، وعلى آله وصحبه الطّاهرين، أمّا بعد:

ظاہر ہوتا ہے کہ جرمنی کے سیاستدانوں نے افریقی ساحل پر سارکوزی کی بیوقوفانہ حرکتوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ اسی وجہ سے اب وہ اسی طرح کی بیوقوفانہ حرکت نائیجیریا میں کررہے ہیں اور اپنے قیدی شہری کو طاقت کے زور پر چھڑانے کے لیے اسپیشل عسکری فورسز کے ذریعے سے نائیجیریا میں مداخلت کرنے کی حماقت کیں، جس کا نتیجہ ان کے قیدی جرمنی شہری
                              (Edgar Fritz Raupach)
"ادگر فریٹز روباخ " کی ہلاکت کی صورت میں نکلا۔

یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہوا، جب مجاہدین مثبت مفاہمت کے ذریعے سے اس معاملے کو نمٹانے کے لیے کوشاں تھے اور اپنے مطالبات پورے ہوتے ہی اس جرمنی قیدی کو واپس اس کے اہلخانہ کے پاس صحیح وسلامت بھجوادیتے۔ سو ہم اس بیان کے ذریعے سے مندرجہ ذیل اموربتانا چاہتے ہیں:
ہم جرمنی شہری "ادغر فريٹز روباخ" کے اہل خانہ سے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمہارے بیٹے کا خون تمہاری حکومت کی گردن پر لٹکا ہواہے۔ فوجی دھاوا بولنے کی کارروائی کی وجہ سے تمہارا بیٹا مارا گیا۔ تمہاری حکومت نے فوجی کارروائی کے لیے گرین سگنل دیا اور اس کی منظوری دی۔ پس تمہیں چاہئے کہ اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کرو۔
ہم یورپی حکومتوں سے عمومی طور پر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مغویوں کے معاملے کو حل کرنے میں احمقانہ اسلوب نے اپنی ناکامی کو ثابت کیا ہے اور ہر مرتبہ تمام حالات میں مغویوں اور کئی فوجیوں کی ہلاکتوں کا باعث بنا ہے۔ جبکہ سنجیدہ مذاکرات اور ذمہ داری اٹھانے کے اسلوب نے اپنی کامیابی کو ثابت کیا ہے اور مغویوں کو رہائی نصیب کرنے کی وجہ بنا ہے۔ جرمنی ماہرعلم اینچٹن نے بیوقوفی کی تعریف یہ کی ہے: ’’ایک ہی کام کو ایک ہی اسلوب کے ساتھ انجام دیکر مختلف نتائج کا انتظار کرنا ہے‘‘ !! ’’پس کیا تم سبق حاصل کرتے ہو‘‘؟!۔
آخری پیغام جرمنی حکومت کے عقلمندوں کے نام ہے: بلاشبہ مسلمانوں اور مقدسات کیخلاف جرمنی یا اس سے باہر ہونے والی دراندازیوں سے ہم غافل نہیں ہیں۔ تمہارے اوپر لازم ہے کہ وقت ہاتھ سے نکل جانے سے پہلے تم اپنی اس غلطی کی اصلاح کرو۔ یاد رکھو! تمہارا امن اور تمہارے شہریوں کا امن مسلمانوں کے امن اور ان کے مقدسات کے احترام کرنے سے مشروط ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين.
تنظیم القاعدۃ برائے مغرب اسلامی
ادارہ الاندلس برائے نشر واشاعت
ـــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــــــــــ ـــــــــــــــــ
‏اتوار: 21 رجب 1433هـ بمطابق: ‏10/06/2012ء
ماخذ: (مركز الفجر برائے میڈیا)

Sunday, June 17, 2012

معرکہ خیر وشر اور فتنہ دجال

  الموحدین :: معرکۂ خیر و شَر اور فتنہ ٔ دجال(احادیث مبارکہﷺ کی روشنی میں)

بسم الله الرحمن الرحیم


خراسان سے نکلنے والے لشکر کا اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام کے علاوہ ان کا کوئی ذاتی مفاد نہ ہوگا لہٰذا ابلیسی قوتیں کہاں برداشت کریں گی، سو ان کے مقابلے کے لئے تمام کفر جمع ہوجائے گا ۔اگر موجودہ حالات پر نظر ڈالی جائے تو صاف نظر آرہا ہے یہودو نصاریٰ ان تمام حدیثوں کو سامنے رکھ کر منصوبہ بندی کررہے ہیں۔اسی لئے امریکہ اور نیٹو کے ممالک مل کر اُ س لشکر کا راستہ روکنے کے لئے بھرپور تیاریوں میں مصروف ہیں اور اس میں وہ مسلمانوں کے ایمان کا سودا کرکے اُن کو بھی اپنے ساتھ شریک کرنا چاہتے ہیں ۔لیکن احادیث مبارکہ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ وہ لشکر ہر رکاوٹ کو دور کرتے ہوئے اپنی منزل پر پہنچ کر دم لے گا۔اب مسلمانوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ کس گروہ کے ساتھ اُن کی ہمدردی اور سپورٹ ہے، اللہ کے مجاہدین کے خراسانی لشکر کے ساتھ یا اس لشکر کو روکنے کے لئے ابلیسی قوتوں کے ساتھ۔



معرکۂ خیر و شَر اور فتنہ ٔ دجال (احادیث مبارکہﷺ کی روشنی میں)
 
cfجمع وتلخیص: ابو یحییٰ الخراسانی



پی ڈی ایف
http://www.4shared.com/office/31EbP8..._Aur_Fitn.html

http://www.mediafire.com/file/nib7cb...a-e-Dajjal.pdf

http://www.divshare.com/download/18235087-b80
یونی کوڈ (ورڈ)
https://www.box.com/s/67e58e4954cb0d713850ان پیج
http://dl.dropbox.com/u/9911860/inpa...jal_inpage.zip


اخوانکم فی الاسلام:

مسلم ورلڈ ڈیٹا پروسیسنگ پاکستان
Website: http://muwahideen.co.nr

یہ فوج اللہ کی فوج ہے یا شیطانی نظام کوفروغ دینے والا گروہ۔۔۔فیصلہ کریں؟





 یہ کس کی فوج ہے؟
قاری عبدالہادی
حال ہی میں پاکستان کی سرزمین پر پے درپے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں،جنہوں نے ہر صاحبِِ فہم شخص کو پاکستان کی افواج اور خفیہ ایجنسیوں کے کردار کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا  ہے۔پہلے ایبٹ آباد میں مسلمانانِ عالم کی غیرت و حمیت کی علامات،کفارٍِ عالم کے خلاف جہاد و مزاحمت کے نشاں،شیخ اُسامہ بن لادن رحمہ اللہ کو ان کے بیٹے اور دو ساتھیوں سمیت شہید کیا گیا اور پاکستانی ایجنسیوں نے آپ کے گھر کی خواتین کو گرفتار کر کے خفیہ قید خانوں میں ڈال دیا ۔


اس سے چند دن قبل پاکستانی فوج اور خفیہ ایجنسیوں نے ایبٹ آباد ہی میں ایک کاروائی کے دوران انڈونیشیا سے تعلق رکھنے والے جہادی قائد ،عمر پاتک کو گرفتار کیا۔ امریکہ و آسٹریلیا کو مطلوب اس مجاہد کو گرفتار کرنے کے بعد ان کی اہلیہ کو تمام اہل محلہ کے سامنے برہنہ کر کے فوجی گاڑی میں ڈالا گیا۔پھر بلوچستان کے علاقے خروٹ آباد میں پولیس اور فوج کے اہلکاروں نے نہتی شیشانی بہنوں کو شہر کی ایک مرکزی شاہراہ پر رسیوں سے باندھا  اور گولیوں سے بھون کر شہید کر ڈالا۔پھر پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے معروف صحافی سلیم شہزاد کو اغوا٫ کیا گیا اور چند روز بعد آئی ایس آئی اہلکاروں نے اسے قتل کر کے منڈی بہاؤ الدین کے علاقے میں اس کی لاش پھینک دی۔اور اس کے بعد پورے پاکستان نے دہشت و خوف کے عالم میں ٹی وی اسکرینوں پر کراچی کے ایک عام شہری سرفراز شاہ کو رینجرز کے ہاتھوں دن دیہاڑے قتل ہونے کا منظر دیکھا۔ان واقعات کے میڈیا پر آجانے کے بعد کئی اصحاب ِ علم ودانش اور تجزیہ نگار و مبصرین نے یوں حیرت کا اظہار کیا گویا فوج کے ہاتھوں ایسے جرائم کا ارتکاب کوئی انہونا امر تھا۔یقیناً اس خطے ،بالخصوص پاکستانی فوج کی تاریخ سے ادنیٰ واقفیت رکھنے والا شخص بھی اس اظہارِحیرت پر،حیرت کا اظہار کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ذیل کی سطور میں ہماری کوشش ہوگی کہ تاریخی و دستاویزی حقائق کی مدد سے اسی حیرت کو دور کرنے کی کوشش کریں جن میں یہ مختلف حضرات مبتلا نظر آرہے ہیں۔
پاکستانی فوج کی قبل از قیامِ پاکستان تاریخ
اگرچہ خود پاکستان کا قیام عمل میں آئے ابھی محض ۶۴ سال گزرے ہیں،لیکن پاکستانی فوج کی بنیاد اس سے ایک صدی قبل ہی،سن ۱۸۴۹ء میں ڈال دی گئی تھی۔شائد اسی لئے نہ صرف یہ فوج عمر میں اس ملک سے تقریبا ً سو سال بڑی ہے ،بلکہ عملاً  بھی اس ریاست کے ہر شعبے پر سو فیصد حاوی ہے۔فوج یہاں اصل ہے اور باقی ہر شے اس کی فرع۔لہٰذا فوج کی قبل از قیامِ پاکستان کی صد سالہ تاریخ جاننا بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا بعد از قیامِ پاکستان تاریخ سمجھنا اہم ہے۔
برطانوی ہندوستان کی"صدارتی افواج"
۱۷۵۷ء میں جنگِ پلاسی میں فتح یاب ہونے کے بعد برطانیہ درجہ بدرجہ پورے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرتا گیا۔ برطانوی قیادت یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ اس نے ہندوستان پر بزورِ قوت قبضہ جمایا ہے اور یہ قبضہ برقرار رکھنے کے لئے بھی اسے قوت کا سہارا لینا پڑے گا۔اسی بات کا اظہار بمبئی کے ایک برطانوی گورنر نے ان الفاظ میں کیا:
"ہم نے ہندوستان کو تلوارکے زور سے قابو کر رکھا ہے۔اگر ہم اپنی فوجی برتری برقرار نہ رکھ پائے تو ہمارا اقتدار بہت تیزی سے ختم ہو جائے گا"۔[1]
چنانچہ ہندوستان پر اپنا غاصبانہ قبضہ برقرار رکھنے کے لئے برطانیہ نے ایک بھرپور فوج منظم کرنا شروع کی۔فوجی قوت کے بل پر کسی قوم کو غلام بنانے کا عمل تو تاریخ میں پہلے بھی ہوتا رہاہے، لیکن ایسا کم ہی ہوا ہو گا کہ کسی قوم کو اسی قوم کے سپاہیوں کی مدد سے غلام بنایا گیا ہو۔برطانیہ نے اہل ہند کوغلام بنانے کے لئے ایک ایسی فوج تشکیل دینے کا فیصلہ کیا جس کی کمان تو یورپی افسروں کے ہاتھ میں ہو، لیکن جس کی سپاہ سب کی سب ہندوستانیوں پر مشتمل ہوں۔اس فوج کو برطانیہ نے بتدریج منظم کرتے ہوئے تین"صدارتی افواج"(Presidential armies) کی  صورت میں ترتیب دیا۔یہ تین افواج درج ذیل تھیں:
•  بنگال آرمی
•  بمبئی آرمی
•  مدراس آرمی
مغربی ہندوستان)موجودہ پاکستان( پر انگریز کا قبضہ
۱۹ ویں صدی کے ابتدائی حصے تک انگریز نے ہندوستان کے مشرقی ،جنوبی اور وسطی علاقوں  پر اپنا قبضہ نسبتاً   مستحکم کر لیا تھا۔اس وقت لاہور پر سکھوں کی حکومت تھی ۔سکھوں کی سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں موجودہ نقشے کے اعتبار سے پاکستانی پنجاب،بھارتی پنجاب ، کشمیر ،صوبہ سرحد کے بندوبستی علاقہ جات اور پنجاب کی سرحد پہ واقع سندھ کے بعض علاقوں تک پھیلی ہوئی تھی۔۱۸۲۵ ء  سے ۱۸۳۰ ء کے درمیان سید احمد شہید رحمہ اللہ کی برپا کردہ تحریک ِمجاہدین نے سکھوں سے مردان،بونیر، پشاور اور کئی ملحقہ علاقے آزاد کرا لئےاور وہاں سید صاحب کی قیادت میں ایک باقاعدہ شرعی امارات قائم ہو گئی ۔
۱۸۳۱ء میں سید صاحب اور ان کے معتمد رفیق اور وقت کے معروف عالم دین شاہ اسماعیل شہید رحمہما اللہ نے سکھوں کے خلاف لڑتے  ہوئے بالا کوٹ کے مقام پر جامِ شہادت نوش کیا تو وقتی طور پر یہ تحریک کمزور پڑ گئی[2] ۔  دوسری طرف سن ۱۸۳۹ء میں سکھ حکمران رنجیت سنگھ کی موت کے بعد باہمی اختلافات کے سبب سکھوں کا اقتدار کمزور ہوا۔انگریزوں نے اس کمزوری سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ۱۸۴۶ء اور ۱۸۴۹ء میں پنجاب پر دو مضبوط حملے کئے اور سکھوں کی باقی ماندہ قوت بھی ختم کردی۔یوں ۱۸۴۹ءکے اختتام تک سکھوں کی پوری سلطنت پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔
انگریز جہاں ایک طرف پنجاب اور سرحد میں سکھ اقتدار کو ختم کر رہے تھے ،وہیں دوسری طرف وہ سندھ اور بلوچستان پر بھی اپنا قبضہ مستحکم کرنے میں مصروف تھے۔ سندھ پر ٹالپور خاندان کے مسلمان امراء کی حکومت تھی،جو پہلے داخلی اختلافات کے سبب کمزور ہوئی  اور سندھ کی وسیع سلطنت خیرپور اور میرپور کی دو علیحدہ حکومتوں میں بٹ گئی۔اس کے بعد انگریزوں نے ۱۸۴۳ء میں میانی کے مقام پر شدید جنگ کے بعد امیر انِ سندھ کو شکست دی اور ساحل سمندر سمیت سندھ کا بیشتر علاقہ انگریزوں کے قبضے میں چلا گیا۔  [3]
 نیز ۱۸۳۹ء تک انگریزوں نے قلات پر بھی قبضہ کر لیا اور ۱۸۴۲ء میں وہاں پولیٹکل ایجنٹ کا نظام نافذ کر دیا گیا۔اس کے بعد رفتہ رفتہ بلوچستان کے دیگر علاقوں پر بھی وہ اپنی گرفت مستحکم کرتے گئے یہا ں تک کہ ۱۸۷۶ء میں کوئٹہ پر بھی انگریزوں کا قبضہ ہو گیا۔[4]  انگریزوں نے ان عسکری فتوحات میں 'بنگال آرمی' اور 'مدراس آرمی' کو استعمال کیا اور کامیابی کے بعد مغربی ہندوستان  میں زیادہ تر بنگال آرمی کے افسر و سپاہی تعینات کئے گئے۔[5]
فرنٹیئر فورسکا قیام
پنجاب اور سرحد کے شہری علاقوں پر قبضے کے بعد انگریزوں کو پہلا مسئلہ یہ درپیش تھا کہ اپنی مغربی سرحد کو کیسے محفوظ بنایا جائے۔ سید احمد شہید رحمہ اللہ کی شہادت کے وقتی دھچکے کے بعد تحریک ِ مجاہدین آہستہ آہستہ دوبارہ منظم ہو رہی تھی،یہاں تک کہ  ۴۶۔۱۸۴۵ء میں بالا کوٹ،گڑھی حبیب اللہ ،مانسہرہ اور مظفرآباد کے علاقوں پر محیط ایک باقاعدہ شرعی امارت قائم ہو چکی تھی، جس کے امیر خطہ ٔ بنگال سے تعلق رکھنے والے مولانا عنایت علی عظیم آبادی تھے۔ [6]ان مجاہدین سے نمٹنے اور پشاور ، مردان، کوہاٹ اور دیگر مقبوضہ علاقوں پر قبائلی مسلمانوں اور مجاہد دستوں کے حملے روکنے کے لئے ۱۸۴۹ء میں انگریز نے ایک نئی قوت،"فرنٹیئر فورس"(Punjab Irregular Frontier Force)قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔"فرنٹیئر فورس" کی دس رجمنٹیں منظم کی گئیں ،جنہیں قبائلی علاقہ جات کی سرحد کے ساتھ ساتھ ڈیرہ اسماعیل خان،کوہاٹ ،بنوں اور پشاور میں متعین کیا گیا۔ان دس رجمنٹوں میں سے پانچ پیادہ اور پانچ سوار رجمنٹیں تھیں۔ہر رجمنٹ کی اعلیٰ  کمان چار یورپی افسران کے ہاتھ میں ہوتی تھی،جن کے تحت سولہ(۱۶) مقامی افسر اور نو سو(۹۰۰)مقامی سپاہی کام کرتے تھے۔مقامی سپاہیوں میں غالب اکثریت کا تعلق مقبوضہ علاقوں کی پشتون اقوام سے تھا،جبکہ پنجاب اور ہندوستان کے دیگر علاقوں کے مسلمان ، سکھ اور ہندو بھی نسبتا ً کم تعداد میں موجود تھے۔[7] "فرنٹیئر فورس"کا قیام ہی دراصل پاکستانی فوج کا غیر رسمی نقطہ ء آغاز ہے۔یہ "فرنٹیئر فورس"رجمنٹ آج بھی پاکستانی فوج کا جزو ہے اور اس کا نام تک تبدیل کرنے کی زحمت نہیں کی گئی،تاکہ اس'روشن تاریخ'سے رشتہ برقراررہ سکے۔فوج میں اس رجمنٹ کو بالا ختصار "Piffers" کے نام سے پکارا جاتا ہے۔پاکستانی بری فوج کے دو سابقہ سربراہ جنرل موسیٰ خان اورجنرل عبدالوحید کاکڑ کا تعلق اسی رجمنٹ سے تھا۔غور طلب نکتہ یہ ہے کہ  قبل از قیامِ پاکستان اور بعد از قیامِ پاکستان کی افواج میں محض یہ اسمی اشتراک ہی نہیں ،بلکہ عملا ً بھی پاکستانی فوج اور ایف سی ،آج قبائلی علاقہ جات اور سوات میں انہی مقاصد کو پورا کرنے میں تن دہی سے مصروف ہے جن کے حصول کی خاطر انگریز نے تقریبا ً ایک سو ساٹھ سال قبل"فرنٹیئر فورس"تشکیل دی تھی۔یہاں اس بات کا ذکر بھی مناسب ہو گا کہ اسی رجمنٹ کے 'جوانوں 'نے ۱۹۹۳ءمیں صومالیہ  [8]کے مسلمانوں اور وہاں موجود شیخ اُسامہ رحمہ اللہ کے مجاہد ساتھیوں کے خلاف لڑائی میں بھی اپنی بھرپور خدمات پیش کی تھیں،ولا حول ولا قوة الا باللہ! 
1857ء کے جہاد (کو کچلنے)میں پاکستانی فوج کی رجمنٹوں کا کردار[9]
بر صغیر کا کوئی بھی باحمیت مسلمان انگریز کی غلامی تلے جینے پر راضی نہیں تھا ۔پھر انگریزوں کی عیسائیت پھیلانے کی مہمات اور مقامی آبادی پر وحشیانہ مظالم دلوں میں مزید نفرتیں بھر رہے تھے۔اسی جزبۂ نفرت کو تحریک ِمجاہدین سے وابستہ علماۓ کرام نے درست سمت دی اور انگریزکی فوج میں کام کرنے والے مسلمانوں کو بغاوت پر اُبھارا۔ایک طرف بنگال میں مولانا عنایت علی اورمولانا ولایت علی رحمہما اللہ کے شاگردوں اور معتقدین نے فوجی حلقوں میں خصوصی محنت کی[10] ،تو دوسری طرف مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہما اللہ جیسے نمایاں علمائے وقت بھی اپنے متبعین سمیت میدانِ جہاد میں اُتر آئے۔بالآخر 10 مئی 1857ء کو میرٹھ میں بنگال آرمی کی دو پیادہ رجمنٹوں اور ایک سوار رجمنٹوں میں بغاوت پھوٹ پڑی۔
مقامی فوجیوں نے اپنے یورپی افسران کو قتل کر کے میرٹھ اور قریبی علاقوں پر قبضہ کر لیا۔اس کے بعد انہوں نے دہلی کا رخ کیا اور چوبیس گھنٹے کے اندر اندر دہلی کے بڑے حصے سے انگریز کو بے دخل کر کے بہادر شاہ ظفر کو ہندوستان کا بااختیار بادشاہ بنا دیا۔بغاوت کی اس آگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے وسطی وشمالی ہندوستان کو اپنی گرفت میں لے لیا۔
یہ ہندوستان میں برطانوی اقتدار کو پیش آنے والا سب سے بڑا خطرہ تھا۔برطانوی قیادت ایک کٹھن صورت ِ حال سے دوچار تھی۔ایک طرف شمالی اور وسطی ہندوستان  پر برطانوی گرفت عملاًختم ہو چکی تھی،تو دوسری طرف بغاوت کی یہ لہر پنجاب،سرحد ،اورسندھ میں موجود 'بنگال آرمی' تک پھیل جانے کا خدشہ بھی قوی تھا۔ایسے میں برطانوی فوجی قیادت نے کچھ فوری اقدامات اٹھاتے ہوئے سب سے پہلے پنجاب اور سرحد کو محفوظ بنانے کا فیصلہ کیا۔پنجاب و سرحد میں موجود یورپی افسروں کی کل تعداد دس ہزار تین سو چھبیس(10،326)تھی۔ان یورپی افسروں نے'فرنٹیئرفورس'کے تیرہ ہزار چارسو تیس(13،430)مقامی سپاہیوں کو ساتھ لیتے ہوئے پہلے پنجاب کی فوجی چھاؤنیوں میں موجود تمام بھاری اسلحہ اور فوجی ذخیرہ اپنے ہاتھ میں لیا۔اس کے بعد اس خطے میں تعینات بنگال آرمی کے تمام غیر یورپی فوجیوں سے ہتھیار ڈلوائےگئے،جن میں سے زیادہ تر کا تعلق بنگال اور اس کے قریبی علاقوں سے تھا۔ یوں فرنٹیئر کور کی خدمات بروئے کار لاتے ہوئے امرتسر ،لاہور،ملتان اور جہلم میں متعین کل تیرہ ہزار(13،000) فوجیوں سے ہتھیار واپس لینے کا عمل پرامن طریقے سے مکمل کرلیا گیا۔
مغربی ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے بعد برطانوی قیادت نے دہلی اور اس کے گرد ونواح میں موجود فوج کی مدد کے لئے پنجاب سے کمک روانہ کی،جو کہ زیادہ تر یورپی سپاہ ہی پر مشتمل تھی۔مگر دہلی کی فوج کے قائد جنرل آرتھر ولسن نے یہ کہتے ہوۓ مزید کمک طلب کی کہ:اگر ایسا نہ کیا گیا تو دہلی واپس لینا تو درکنار ،خود اپنا دفاع کرنا بھی ناممکن ہو جاۓ گا۔اس نازک اور تاریخی موقع پر ، جب پورے ہندوستان کا مستقبل ایک اہم دوراہے پر کھڑا تھا اورہندوستانی مسلمان انگریزی اقتدار سے نجات پانے کے لئےاپنا سب کچھ داؤ پر لگا رہے تھے؛برطانیہ نے اس مبارک جہاد ی تحریک کو کچلنے کے لئے ایک نئی قوت کھڑی کرنے کا فیصلہ کیا۔مئی سے دسمبر 1857ءکے درمیان پنجاب و سرحد سے 34،000 نئےفوجی بھرتی کئے گئے جن میں سکھوں اور ہندوؤں کے علاوہ خود کو مسلمان کہلانے والے بھی بڑی تعداد میں شامل تھے۔ان فوجیوں  نےبنگال آرمی کےان مقامی سپاہیوں کی جگہ سنبھالی جن سےہتھیار ڈلوائےگئےتھے،نیزانہی کو منظم کرکے اٹھارہ(18)نئی پیادہ رجمنٹیں بھی رتشکیل دی گئیں۔یہی وہ قوت تھی جس کی مدد سے برطانیہ نے دہلی واپس لیا اور بالآخر جون 1858ءتک یہ مبارک جہادی تحریک کچل ڈالی گئی۔ انھی بدبختوں کی مدد سے ہندوستان کے طول و عرض میں مسلمانوں کا قتلِ عام کیا گیا،ان کی  املاک تباہ کی گئیں،ہزارہا علماء کو پھانسی دے کر نشانِ عبرت بنایا گیا اور مسلمان خواتین کی آبرو ریزی کی گئی۔کتنی ہی خواتین نے اپنی عزت بچانے کیلئے کنوؤں میں چھلانگیں لگائیں۔مولوی ذکاءللہ رحمہ للہ لکھتے ہیں:
"کنوؤں میں اس قدر عورتیں گریں کہ پانی میں ڈوبنے کی جگہ نہ رہی۔پھر ان پر اور عورتیں گریں اور وہ ڈوب نہ سکیں۔"[11]
دہلی پر قبضے کے بعد کا منظر بیان کرتے ہوئے انگریز جرنیل لارڈ روبرٹس لکھتا ہے:
"دہلی واقعی شہر خموشاں بنا ہو تھا۔ہمارے گھوڑوں کے سموں کی آواز کے سوا وہاں کوئی آواز نہ تھی ۔ہر طرف لاشیں پڑی تھی۔ہر لاش گل سڑ رہی تھی۔یہ مناظر بڑے ہی خوفناک اور دل دہلا دینے والے تھے۔کتے لاشوں کے اعضاء بھنبھوڑ رہے تھے۔بعض لاشوں  کو گدھ کھا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہمارے گھوڑوں  پر بھی دہشت طاری ہو گئی تھی۔وہ بدکتے اور نتھنے پھلا کر عجیب سی آوازیں نکالتےتھے"۔  [12]
'فاتح فوج'مسلمانوں کے گھروں میں موجود تجارتی مال ، سونا  چاندی ،  نقدی، کتابیں اور گھریلو سامان، حتی کہ چارپائیاں تک اٹھا کر ساتھ لے گئی۔[13]  الغرض ،ظلم کا ہر ممکنہ حربہ استعمال کیا گیا تاکہ مسلمان دوبارہ کبھی جہادکا نام لینے کی جرأت نہ کریں۔
1857ء کی جہادی تحریک کو کچلنے میں مغربی ہندوستان(موجودہ پاکستان)کی رجمنٹوں نے جو مکروہ کردار ادا کیا،وہ برطانوی قیادت کے لئے بھی خوشگوار طور پر حیران کن تھا۔ایک معروف انگریز مصنف نے اس زمانے میں لکھا کہ:
  "سب سے زیادہ حیرانی کی بات یہ تھی کہ'غدر'کے دوران اگرچہ عام طور پر یہ سمجھا جارہا تھاکہ انگریزوں کی جنگ ہندوستانیوں کے خلاف ہے،مگر اس جنگ کو برقرار رکھنے اور اس کو مدد پہچانےکے ذمہ دار بھی دیسی لوگ ہی تھے……… جو کام ان کے سپرد کیا جاتا اسےبڑی تندہی اور وفاداری سے سر انجام دیتے۔گویا کہ ہمارے اور ان کے درمیان کچھ مخاصمت اور جدائی نہیں اور نہ ہمارے اور ان کے مفادات جدا ہیں……… اگر یہ دیسی مزدور نہ ہوتے تو نہ ہماری فوج کو کھانا ملتا،نہ ہمارے گھوڑوں کو چارہ مہیاہوتا،نہ ہماری توپوں  میں گولے ڈالے جاسکتےاور نہ ہی ہمارے بھاری اسلحے کو ایک مقام سے دوسری پر منتقل کیا جاسکتا۔اور تو اور،ہم اپنے مردوں اور زخمیوں کو میدانِ جنگ سے اٹھانے کے قابل بھی نہ ہوتے۔مگر ہمارے یہ دیسی ملازم ہر حال میں ہمارے وفادار رہے اور صرف چند ماہانہ روپوں کی خاطر یہ کرائے کے ٹٹو ہمارے ساتھ چمٹے رہے اور انہوں نے کبھی خیال نہیں کیا کہ ایسا کرنا ان کے لئے کتنی بے غیرتی کی بات ہے!"[14] 
چنانچہ برطانوی فوج نے جنگ کے بعد بھی ان وفادار فوجیوں کو نوکری پر بحال رکھنے کا فیصلہ کیا۔نیز بنگالی فوجیوں کے باغیانہ رجحانات دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ'بنگال آرمی'میں پنجاب و سرحد کے فوجیوں کے کا تناسب بتدریج بڑھایا جائے گا اور بنگالی فوجیوں کا تناسب  بتدریج کم کیا جائے گا۔یہ پہلی بار تھا کہ مغربی ہندوستان کے لوگوں کو فرنٹیئر فورس(جو کہ ایک نیم فوجی فورس تھی)سے آگے بڑھ کر برطانیہ کی باقاعدہ فوج میں بھی شامل کیا جا رہا تھا۔ بھرتی کا یہ سلسلہ بتدریج جاری رہا،یہاں تک کہ سن 1870ء تک بنگال آرمی میں پنجاب و سرحد کے فوجیوں کا تناسب بڑھ کر 35 فیصد تک پہنچ گیا۔[15]اس کے علاوہ ،ایک قلیل سی تعداد میں بلوچ قومیت کے لوگ بھی فوج میں شامل ہوئے۔
مغربی ہندوستان سے بھرتی کی جانے والی یہ رجمنٹیں بھی آج تک پاکستانی فوج میں انہی ناموں کے ساتھ برقرار ہیں  جو1857ءکے جہاد کے وقت انہیں انگریز نے عطا کئے تھے!
افغانستان کی سمت سے خطرات اور پاکستانی فوج کی تاسیسِ اوّل [16]
1848ء میں برطانیہ نے افغانستان پر حملہ کر کے اپنے وفادار سردار دوست محمد خان کو کابل کا حاکم مقرر کیا۔1863ء میں دوست محمد خان کی وفات کے بعد برطانیہ افغان تعلقات بتدریج کشیدہ ہوتے چلے گئے اور افغانستان کا نیا امیر برطانیہ سے سرکش ہو کر روس سے قربتیں بڑھانے لگا۔اسی پس منظر میں سن 1878ء میں دوسری برطانیہ افغان جنگ کا آغاز ہوااور برطانیہ نے کابل پر قبضہ کرنے کے بعد یعقوب خان نامی آلۂ کارکو کابل کا نیا امیر مقرر کیا۔افغانستان کے پہاڑوں سے ٹکرانے کے بعد برطانیہ نے یہ بات بخوبی سمجھ لی تھی کہ افغان قوم کو بزورِ قوت غلام بنانا نا ممکن ہے۔اسی لئے اس نے اپنے سامنے بنیادی ہدف بس یہ رکھاکہ افغانستان میں ایک ایسی حکومت موجود ہو جواس کی مغربی سرحدات کے لئے کسی خطرے کا باعث نہ بنے۔نیز برطانیہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ افغانستان اب اس کے اور روس کے درمیان سیاسی رسہ کشی کا ایک مستقل میدان بنا رہے گا۔اسی لئے اس نے:
•    ہندوستان کی مغربی سرحدات کی حفاظت کرنے،
•    روسی خطرے سے نمٹنے ،
•    اور انگریز کے نمک خوار کرزئی نما حکمرانوں کے خلاف افغان عوام کی ممکنہ بغاوتیں کچلنےکی غرض سے مغربی ہندوستان (یعنی موجودہ پاکستان)میں اپنی فوج  کو مزید مضبوط و منظم کر نے کا فیصلہ کیا۔معروف برطانوی جرنیل لارڈروبرٹس،جو پہلے فرنٹیئر فورس کا سربراہ رہا،پھر افغانستان پر حملے کی قیادت کی اور 1885ء میں بنگال آرمی کا سربراہ مقرر کیا گیا،اور برطانوی جرنیل جنرل جورج میک مَن (Mac Munn)؛ دونوں ہی اس بات کے پر زور داعی تھے کہ مذکورہ بالا اہداف حاصل کرنےکے لئےیہ لازم ہے کہ برطانوی قابض فوج برصغیر کی بہترین جنگجو نسلوں پر مشتمل ہو۔چنانچہ برطانوی جرنیلوں نے بر صغیر کی مختلف اقوام کے ساتھ اپنے تجربات کی روشنی میں کچھ مخصوص علاقوں میں پائی جانے والی مخصوص اقوام کو "جنگجو نسلیں"(martial races)قرار دیا۔ ان اقوام کو محض ان کی جنگی صلاحیتوں کے سبب نہیں چنا گیا،بلکہ ان کی برطانوی حکومت سے وفاداری اور ان کی معاشی تنگ دستی وغیرہ جیسے عوامل بھی مد نظر رکھے گئے۔ برطانیہ کی چنیدہ جنگجو نسلوں والے ان علاقوں میں سب سے نمایاں اضلاع درج ذیل  تھے:
•  ضلع جہلم
•  ضلع راولپنڈی
•  ضلع اٹک
•  ضلع کوہاٹ
•  ضلع بونیر[17]
1885ء میں جب جنرل روبرٹس نے بنگال آرمی کی قیادت سنبھالی تو نہ صف بنگال آرمی ،بلکہ مدراس اور بمبئی آرمی میں بھی غیر جنگجو نسلوں کی جگہ اِن وفادار جنگجو نسلوں کو بھرتی کرنے کا عمل تیزی سے شروع ہو گیا۔یہ سلسلہ جنرل روبرٹس کے بعد لارڈ کِچنر(Kitchener)نے بھی جاری رکھا۔نیز اس نے ہندوستان میں موجود پوری برطانوی فوج کی تنظیم ِ نو بھی کی۔ کِچنر نے 1903ء تک مدراس ،بنگال اور بمبئی کی صدارتی افواج کو باہم ضم کر کے ایک مرکزی کمان کے تابع کر دیا۔پھر اس "شاہی ہندی فوج"(Royal Indian Army) کو چار علاقائی کمانوں میں تقسیم کیا؛یعنی بنگال،پنجاب (جس کے تحت فرنٹیئر فورس بھی شامل تھی)، مدراس اور بمبئی کی کمان۔چونکہ یہ ساری تبدیلیاں افغانستان اور روس سے درپیش خطرات کے تناظر میں کی گئی تھیں،اس لئے'پنجاب کی فوجی کمان'افغانستان کے سب سے قریب واقع ہونے کے سبب مرکزی اہمیت اختیار کر گئی۔نیز مغربی ہندوستان کے چار اہم علاقوں : پنجاب ، سرحد، سندھ اور بلوچستان پر گرفت مضبوط رکھنا بھی اسی کمان کے ذمے لگا۔پھر اس کی اہمیت کا ایک اور سبب یہ بھی تھا کہ سن 1900ء تک پورے ہندوستان میں پھیلی شاہی  ہندی فوج کی آدھی سے زائد(50.6 فیصد) نفری وہ 'جنگجو نسلیں 'فراہم کر رہی تھیں،جن کی اکثریت پنجاب و سرحد کے علاقوں سے تعلق رکھتی تھی۔قابض برطانوی افواج کی یہی 'پنجاب کی فوجی کمان'، درحقیقت آج کی پاکستانی فوج کا دل ہے۔پس اس کمان کے باقاعدہ قیام کو پاکستانی فوج کی تاسیسِ اوّل اور لارڈ کِچنر کو پاکستانی فوج کا مؤسس ِ اوّل کہنا کچھ زیادہ غلط نہ ہو گا۔
یہ پورا پس منظر سمجھ لینے کے بعد اس نتیجے تک پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ(80ء کی دہائی میں)پاکستانی فوج نے اگر روس کے خلاف جہاد میں مجاہدین کی کوئی مدد کی،توہ کسی دینی سوچ سے زیادہ اسی برطانوی سوچ کا مظہر تھی جو روس کو اپنے لئے ایک مستقل خطرہ سمجھتی تھی ۔[18]اسی طرح اگر پاکستانی فوج آج افغانستان کی طالبان تحریک کو کوئی مدد فراہم کرے تو اس کا سبب بھی یہ نہیں ہو گا کہ فوج کی قیادت  شرعی نظام کو غالب دیکھنے کے لئے بے چین ہے۔اگر ایسا ہی ہوتا تو یہ فوجی قیادت سب سے پہلےاپنے دائرۃ اختیار میں شریعت نافذ کرتی۔یہ تو دراصل اسی برطانوی سوچ کا تسلسل ہے کہ کابل میں ایک ایسی دوست حکومت ہونی چاہیے جس کے سبب اس خطے کی مغربی سرحدات  کو کوئی خطرہ درپیش نہ رہے۔نیز اس پس منظر کوذ ہن میں رکھا جائے تو گیارہ ستمبر کے بعد پاکستان  کی فوجی قیادت نے طالبان سے رشتہ توڑ کر امریکہ کا ساتھ دینے کا جو فیصلہ کیا،اسے بھی ہرگز"یو ٹرن"سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ انگریز نے تو یہ فوج بنائی ہی اس لئے تھی کہ اگر افغانستان کی حکومت اس کے اشاروں پر چلنے سے انکار کر دے،تو اس پر حملہ کر کے اس کی جگہ کوئی کرزئی نما شخص کابل کا حاکم بنادیا جائے۔
خلافتِ عثمانیہ کے سقوط میں پاکستانی فوج کا کردار
سن1914ءمیں پہلی  جنگِ عظیم کا آغاز ہوتا ہے۔خلافتِ عثمانیہ نے اس جنگ میں جرمنی کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیااور یوں اسے بیک وقت برطانیہ ،فرانس،روس،اٹلی اور یونان سمیت کئی یورپی ممالک کی یلغار کا سامنا کرنا پڑا۔تاریخِ اسلامی کے اس نازک موڑ پر جب مادی قوت میں کہیں برتر صلیبی افواج پوری شدت کے ساتھ عالمِ اسلام کے قلب پر حملہ آور تھیں؛ہندوستان میں بالکل متضاد موقف کے دوواضح گروہ نظر آرہے تھے۔پہلا گروہ ان علمائےکرام،مجاہدین اور عوام المسلمین کا تھا جو خلافت بچانے کے لئے ہر ممکن قربانی دینے پر تیار تھے اور  دعوتی، عسکری ،سیاسی،ہر محاذ پر دفاعِ خلافت کے لئے کوشاں تھے۔اسی گروہ کی ایک نمائندہ شخصیت شیخ الہند مولانا محمود الحسن ؒتھے جو سرحدی علاقہ جات میں موجود تحریکِ مجاہدین کے عناصر کے ساتھ مل کر ایک بھر پور عسکری تحریک برپا کرنے کی تیاریاں کر رہے  تھے۔آپ  بلآخر برطانیہ کے خلاف ساش کے الزام میں حجاز سے گرفتار کیے گئے اور جزائر ِ مالٹا(اس وقت کے گوانتانامو) میں قید کر دئیے گئے۔
 
ایک طرف سرفروشی و قربانی کی یہ تاریخ رقم ہو رہی تھی،تو دوسری طرف وہ فوجی و جاگیر دار طبقہ تھا جو خلافت گرانے اور سلطنت ِ برطانیہ کا دفاع کر نے کے لئے اپنی تمام تر خدمات پیش کر رہا تھا۔ستمبر 1914ءسے نومبر 1918ء تک ہندوستان کے 15 لاکھ فوجی،نیم فوجی اور غیر فوجی افراد یورپ،افریقہ اور مشرق ِوسطیٰ کے مختلف محازوں پر برطانوی کمان تلے جنگ میں شریک ہوئے۔اس پورے عرصے میں تقریبا 7 لاکھ نئے فوجی پورے ہندوستان سے بھرتی کئے گئے،جن میں سے 60 فیصد 'پنجاب کی فوجی کمان'نے فراہم کئے۔      
اس بدبخت فوج کے سپاہیوں کو مصر میں نہر سویز کی حفاظت پر تعینات کیا گیا  جہاں انہوں نے جنوری 1915ء میں عثمانی فوج کا ایک مضبوط حملہ پسپا کرکے برطانیہ کی رسد کے اس اہم ترین رستے کی حفاظت کی۔انہی کو فارس میں موجود تیل کے کنوؤں کو عثمانی فوج کے حملوں سے محفوظ بنانے کا کام سونپا گیا۔پھر جب برطانوی جرنیل سٹینلے موڈ نے ایک لاکھ چھیاسٹھ ہزار (1،66،000)فوجیوں پر مشتمل لشکر کے ساتھ فروری 1917ء میں بغداد کی سمت پیش قدمی شروع کی تو اس کے لشکر کی بھی دو تہائی تعداد کا تعلق ہندوستان ہی سےتھا۔11 مارچ 1917ء تک ان وفادار فوجیوں کی مدد سے برطانیہ نے بغداد پر قبضہ مکمل کر لیا۔پھر اسی فوج کے سہارے جنرل وِلیَم مارشل(William Marshal)نے اکتوبر 1918ء میں تیل کے وسیع ذخائر کے حامل شہر موصل پر قبضہ کیا۔پھر جب برطانیہ کی صلیبی فوج نے سر زمینِ انبیاء فلسطین کو صدیوں بعد مسلمانوں سے چھینا اور وہاں صہیونی اسرائیلی ریاست کی بنیاد ڈالی،تو اس مکروہ فوجی مہم میں بھی شاہی ہندی فوج پوری طرح شریک رہی۔بدبخت برطانوی جرنیل جنرل ایلن بی،جس نے فلسطین میں داخلے کے بعد صلاح الدین ایوبی ؒ  کی قبر پر لات مار کر انہیں حقارت سے مخاطب کیا تھا،اس بدبخت کی قیادت میں ستمبر 1917ء میں غزہ اور دسمبر 1917ء میں بیت المقدس پر قبضہ کرنے والی فوج کا بڑا حصہ ہندوستان سے بھیجی گئی رجمنٹوں پر مشتمل تھا،وھل من عار بعد ھذاالعار!
شاہی ہندی فوج نے ہر محاذ پر کفار کے لئے 'قربانیاں'دیں۔میرٹھ اور لاہور کی ایک ایک پیادہ ڈویژن کوڈویژن جرمن فوج کے ہاتھوں ماری گئی۔اپریل 1915ء کی ایک رات میں زہریلی گیس پھینکے جانے سے لاہور ڈویژن کے چار ہزار کے قریب فوجی مردار ہوئے۔اسی طرح ترکی کے تاریخی و عسکری اہمیت کے حامل جزیرہ نما 'گیلی پولی'پر قبضہ کرنے کی ناکام مہم میں بھی بہت سے ہندوستانی فوجی جہنم واصل ہوئے ۔[19]'59 سندھ رائفلز'کے حوالدار عبد الرحمان نے1915ء میں یورپ سے ہندوستان میں موجود اپنے ایک فوجی دوست نائیک راج ولی خان کو خط لکھا،جو'21 ویں پنجاب رجمنٹ' سے تعلق رکھتا تھا اور ژوب (بلوچستان)میں تعیبات تھا۔یہ خط اس بات کو بخوبی واضح کرتا ہے کہ یہ کرائے کے فوجی 'فی سبیل الطاغوت' کیسی سخت 'ڈیوٹی' دے رہے تھے:
"خداکا واسطہ ہے!یورپ کی اس جنگ میں شریک ہونے ہر گز مت آنا!مت آنا!مت آنا! مجھے خط لکھ کر بتاؤ کہ تمہیں یا تمہاری رجمنٹ والوں کو یہا ں بھیجا تو نہیں جا رہا۔میں بہت پریشان ہوں،میرے بھائی یعقوب کو بھی کہہ دو کہ خدا کا واسطہ ہے!اپنا نام مت لکھوائے!اگر تمہارے کوئی رشتہ دار ایسا ارادہ رکھتے ہیں تو ان کو بھی میری یہی نصیحت ہو گی کہ ہرگز بھرتی نہ ہوں ………توپیں ،مشین گنیں اور بم یہاں یوں برس رہے ہیں گویا مون سون کی بارش ہو۔ہم میں سے جو لوگ زندہ بچے ہیں ان کی تعداد ہانڈی میں باقی رہ جانے والے چند دانوں سے زیادہ نہیں۔میری کمپنی میں صرف دس لوگ باقی بچے ہیں اور پوری رجمنٹ میں صرف دو سو"۔[20]
یقیناً شاہی ہندی فوج کی ان غیر معمولی 'قربانیوں'کے بغیر برطانیہ اور اس کے اتحادی خلافتِ عثمانیہ کو گرانے اور جرمنی کو شکست دینے میں ہرگز کامیاب نہیں ہو سکتے تھے۔
دوسری جنگِ عظیم میں پاکستانی فوج کا کردار
دوسری جنگِ عظیم دراصل پہلی جنگِ عظیم ہی کا تسلسل تھی،البتہ اس بار خلافت ِ عثمانیہ دنیا کے نقشے پر موجود نہیں تھی۔ جنگ میں اتحادی افواج کا بنیادی مقصد جرمنی کی فتوحات کو روکنا تھا،جو ہٹلر کی قیادت تلے منظم ہو کر یورپ سے پہلی جنگِ عظیم کی  شکست کا بدلہ لے رہا تھا۔ہٹلر کی افواج نے دیکھتے ہی دیکھتے پولینڈ،چیکوسلواکیہ،ہالینڈ،ڈنمارک ،آسٹریلیا اور ہنگری پر زیادہ مزاحمت جھیلے بغیر ہی قبضہ کر لیا۔اس نازک صورتِ حال میں،جب پورا یورپ ہی جرمنی کے قبضے میں چلے جانے کا اندیشہ تھا،برطانیہ نے ایک بار پھر شاہی ہندی فوج کی خدمات لینے کا فیصلہ کیا۔ہندوستانی فوجیوں نے بھی 'فرض'کی اس پکار پر لبیک کہا اور 1945ء تک صرف مغربی ہندوستان سے اس جنگ میں شرکت کے لئے آٹھ(8) لاکھ نئے فوجی بھرتی ہوئے۔نیزپورے ہندوستان سے اس جنگ میں شریک ہونے والے فوجی اور غیر فوجی افراد کی ایک تہائی تعداد'پنجاب کی فوجی کمان'نے فراہم کی۔[21]
جنگ ِعظیم  اوّل و دوم میں شاہی ہندی فوج کی اسی غیر معمولی کارکردگی نے خود برطانوی فوجی قیادت کو بھی حیران کر دیا اور یہ بات ان کے یہاں ایک مسلّم حیثیت اختیار کر گئی کہ اس سے زیادہ قابل ِ اعتماد فوج ملنا نا ممکن ہے۔تبھی تو پاکستانی فوج کی تاریخ پر لکھنے والے معروف مصنف و تاریخ دان سٹیفن پی کوہن نے لکھا ہے کہ:
"جنوبی ایشیا کے سلامتی معاملات سے منسلک تقریبا  ًتمام برطانوی فوجی جرنیل تقسیم ِہند کے تصور سے نا خوش تھے ………ان کا خیال تھا کہ قدیم ہندوستانی فوج ،جو تقریبا دو سو سال سے موجود تھی،دو عظیم جنگوں اور بہت سی چھوٹی لڑائیوں میں اپنی افادیت ثابت کر چکی ہے (اس لئے اس سے دستبردار ہونا سراسر نقصان کا سودا ہے)"۔   [22]
ہندوستانی فوجی کس چیز کی خاطر لڑرہے تھے؟
ظاہر ہےکہ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم ، دونوں میں ہندوستانی فوجی نہ تو کسی دینی غیرت یا قومی حمیت کے سبب شریک ہوئے تھے،نہ ہی وہ جذ بہء جہاد یا شوقِ شہادت سے بے قرار ہو کر میدان میں اترے تھے۔ان کے سامنے بنیادی محرک بعینہ وہی تھا جس نے انہیں 1857ء میں مسلمانوں کے خلاف لڑنے پر اُبھاراتھا؛اور جس کا تذکرہ ایک انگریز مصنف نے ان الفاظ میں کیا تھا کہ:
"صرف چندماہانہ  روپوں کی خاطر یہ کرائے کے ٹٹو ہمارے ساتھ چمٹے رہے"! [23]
1857ء کے جہاد کو کچل دینے کے بعد انگریز نے جہاد سے لاتعلق اور انگریزی سرکار سے وفادار رہنے والے افراد میں بڑی بڑی زمینیں تقسیم کی تھیں۔اس کے بعد سے انگریز کا مستقل دستور چلا آرہا تھا کہ وہ ہر سال چند منتخب فوجی افسران کو ان کی'نمایاں کارکردگی'کی بناء پر پانچ، پانچ سو ایکڑ زمین عطا کرتا تھا۔بھر کچھ عرصے بعد انگریزی حکومت نے چناب،جہلم،لوئر باری دوآب اور نیلم بار کے زرخیز علاقوں میں چار وسیع نہری کالونیاں بنائیں جن کی زمینیں سالہا سال برطانوی سرکار سے وفادار فوجی و غیر فوجی طبقات میں تقسیم کی جاتی رہیں۔ایک محتاط اندازے کے مطابق اس منصوبے کے تحت کل پانچ لاکھ ایکڑ زمین تقسیم کی گئی۔یہ زمینیں بالعموم 99 سال کے لئے اجارے (lease) پر دی جاتی تھیں ۔زمین لینے والے فوجی کو حکومت سے یہ معاہدہ کرنا پڑتا تھا کہ:
"مجھ پر لازم ہے کہ میں ابھی اور اس کے بعد بھی ہمیشہ وفادار رویے کا مظاہرہ کروں اور ہر مصیبت اور بد نظمی کے موقع پر حکومت اور اس کے افسروں کی عملی مدد کروں ……… اگر مقامی حکومت کو کسی بھی وقت یہ محسوس ہوا کہ میں اس شرط کی پاسداری نہیں کر رہا تو وہ یہ معاہدہ ختم کر کے زمین واپس لینے کی مجاز ہے"۔ [24]
وفاداریاں خریدنے کی یہ روایت جاری رکھتے ہوئے،پہلی جنگِ عظیم کے دوران پنجاب کی سول انتظامیہ تاکہ اسے جنگ میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے افسروں میں تقسیم کیا جاسکے۔اس کے علاوہ جنگ میں شریک ہر فوجی کے ماں باپ کو نقدی وغیرہ کی صورت میں انعامات دیئے جاتے، فوجیوں  کی بیواؤں کو عام حالات سے کہیں زیادہ پنشن ملتی اور فوج میں بھرتی ہونے والے ہر فرد کو بھرتی ہوتے ہی پچاس(50)روپے بونس دیا جاتا تھا۔نیز جو شخص  اپنے جتنے زیادہ رشتہ داروں کو فوج میں بھرتی کرواتا،اسے ٹیکسوں میں اتنی ہی زیادہ چھوٹ ملتی۔اسی طرح جس خان ، ملک یا نواب کی قوم جنگ کے دوران زیادہ وفاداری کا مظاہرہ کرتی، اسے اتنی ہی بڑی جاگیر اور القابات عطا کئے جاتے۔[25] باوجود اس کے کہ پہلی جنگِ عظیم میں مارے جانے یا معذور ہونے والے ہندوستانی فوجیوں کی تعداد لاکھوں میں  پہنچتی تھی اور ہندوستانی فوجیوں کو جنگ میں نہایت ہی مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑا تھا،لیکن دوسری جنگِ عظیم  کے موقع پر بھی اس حقیر دنیاوی مال و متاع کی خاطر ہندوستان کے لاکھوں فوجی ایک بار بھر برطانیہ کے دفاع کی جنگ لڑنے میدان میں اتر آئے تھے۔پس تنخواہ،ترقی،زمین اور پنشن ہی وہ بنیادی محرک تھے جن کی لالچ میں ہندوستانی فوج ڈیڑھ دو سو سال اپنے برطانوی آقاؤں کی خدمت کرتی رہی۔نیز اس فوج میں سے بھی سب سے نمایا ں کردار 'پنجاب کی کمان'نے ادا کیا جسے اپنی غیر معمولی وفاداری کی بدولت "برطانوی راج کے دائیں بازو"یا " Sword Arm of the British Raj"[26]  کا خطاب ملا۔

پاکستانی فوج کی بعد از قیام ِ پاکستان تاریخ
پاکستانی فوج کی تاسیس ِ ثانی
14 اگست 1947ء کو پاکستان نامی ریاست دنیا کے نقشے پر نمودار ہوئی،جو مغربی ہندوستان کے پانچ مسلم اکثریتی علاقوں (پنجاب، سندھ،سرحد،بلوچستان اور کشمیر )کے علاوہ مشرقی ہندوستان کے خطہء بنگال پر مشتمل تھی۔اگر چہ برصغیر کے عام مسلمانون نے قیامِ پاکستان کے لئے قربانیاں اس اُمید سے دی تھیں کہ 'لاالٰہ الا اللہ'کی حکومت قائم ہو گی؛لیکن ایک تلخ حقیقت اس خواب کی تکمیل میں واضح طور پر حائل تھی۔تقسیم کے فارمولے کے تحت پاکستان کے حصے میں جو فوج آنی تھی،وہ  لاالٰہ الا اللہ کے مفہوم سے نا آشنا وہی'شاہی ہندی فوج تھی جو پورے دورِ غلامی میں مسلمانوں کا خون بہاتی اور برطانوی راج کا دفاع کرتی رہی تھی۔اس پوری فوج اور اس کے اثاثوں کا چھتیس(36)فیصد حصہ پاکستان کو ملا، جس میں آٹھ(8)پیادہ رجمنٹیں،آٹھ(8) توپخانہ رجمنٹیں اور آٹھ(8) بکتر بند رجمنٹیں شامل تھیں۔اس کے علاوہ کئی تربیتی مراکز اور کراچی اور چٹاگانگ  میں واقع بحری تنصیبات بھی پاکستان کو دی گئیں۔[27] چنانچہ قیام ِ پاکستان کے وقت ملک کا سب سے بڑا ،منظم اور قومی ادارہ یہی فوج کا ادارہ تھا،جس کا منطقی نتیجہ یہی نکلا کہ آنے والے سالوں اور دہائیوں میں اسی ادارے نے اس ملک کی باگ دوڑ مکمل طور پر سنبھال لی اور قیام ِ پاکستان سے قبل نافذ فرنگی نظام میں کوئی جوہری تبدیلی نہیں آنے دی۔
اگر قیام ِ پاکستان کے بعد کچھ سنجیدہ اقدامات اٹھائےجاتے اور انگریز کی وفادار اس پوری فوج کو جڑ سے تبدیل کر دیا جاتا،اس کا تربیتی نصاب جید علمائے دین،سرحدی علاقہ جات میں موجود مجاہدین اور جدید عسکری ماہرین کی رہنمائی میں ازسر ِنو ترتیب دیا جاتا،فوج کی مکمل تنظیم ِنو کی جاتی اور انگریز کے نمک خوار افسر طبقے کو نکال پھینکا جاتا تو شائد اس بات کا کوئی امکان ہوتا کہ یہ فوج'ہماری فوج'بن جائے۔لیکن عملی حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہ ہو سکا،اور نہ ہی شائد اس سمت کچھ زیادہ سوچا گیا۔نتیجتا ً قیام ِ پاکستان کےبعد بھی شاہی ہندی فوج بلا ترمیم و تطہیر برقرار رہی،البتہ اب خون ِمسلم میں لتھڑے ہاتھوں والی اسی فوج کو 'پاک فوج'کہا جانے لگا!
پاکستانی فوج کی اٹھان میں برطانیہ کا کردار
تقسیم ہند سے قبل انگریزوں کی فوجی قیادت مقامی فوجیوں کو بالعموم اعلیٰ عہدوں تک ترقی نہیں دیتی تھی،اس لئے پاکستانی فوج کو ابتدائی عرصے میں افسروں کی شدید کمی درپیش ہوئی۔ڈیڑھ لاکھ فوجیوں کی کمان سنبھالنے کے لئے صرف ڈھائی ہزار افسر میسر تھے،جبکہ ضرورت چار ہزار افسروں کی تھی۔اس کمی کو برطانیہ ، ہنگری اور پولینڈ کے افسروں نے پورا کیا،جن میں سے بعض 1950ء کی دہائی تک بھی موجود رہے۔یہی نہیں بلکہ پہلے پانچ سال تو پاکستانی برّی افواج کی قیادت ِ اعلیٰ بھی انگریز افسروں کے ہاتھ میں رہی۔ پاکستانی فوج کا پہلا سربراہ جنرل فرینک میسروی(Frank Messervy)تھاجو اگست 1947ء سے فروری 1948ء تک اپنے عہدے پر رہا،جبکہ دوسرا سربراہ جنرل ڈگلس ڈیوڈ گریسی(Douglas David Gracey)تھاجو فروری 1948ء سے جنوری 1951ء تک اس عہدے پر فائز رہا۔ [28] اسی  طرح پاکستانی فوج کے نہایت اہم شعبے ،ایس ایس جی(یا کمانڈو دستوں) کی ابتداء بھی 1950ء میں کوئٹہ کے 'Close Quarter Battle School'میں ایک برطانوی افسر کرنل گرانٹ ٹیلر کے ہاتھوں  ہوئی۔[29]  نیز فوجیوں کی تربیت کے لئے بھی انگریز کا بنایا ہوا 'رائل انڈین آرمی سروس کور سکول،کاکول'بدستور استعمال ہوتا رہا ، البتہ اس کا نام بدل کر اسے 'پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول' کہا جانے لگا۔اعلیٰ افسران کی تربیت بھی برطانوی تربیتی ادارے 'کیمبر لی'کے طرز پر بنائے گئے،'سٹاف کالج کوئٹہ ' میں جاری رہی۔اس کالج کی بنیاد لارڈ کِچنر نے قبل از تقسیم ِہند ڈالی تھی اور تقسیم کے بعد بھی 1954ء تک اس کی کمان برطانوی افسروں کے ہاتھ میں رہی۔اسی طرح توپ خانے  کی تربیت کے لئے نوشہرہ میں جو 'آرٹلری سکول'قائم کیا گیا،اس کے اساتذہ کی تربیت بھی 1952ء تک برطانیہ میں ہوتی رہی اور اس کے بعد وہ تربیت کے لئے امریکہ کے فوجی مراکز فورٹ سل، اوکلاہوما جانے لگے۔   [30]
یہاں یہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ پہلے دو انگریز فوجی قائدین کے جانے کے بعد بھی جن لوگوں نے اس فوج کی قیادت سنبھالی وہ اسی نسل سے تعلق رکھتے تھے جو براہِ راست انگریز افسروں سے انہی کی اکیڈمیوں میں تربیت پاچکی تھی اور مختلف جنگوں میں انگریز سے وفاداری کا عملی ثبوت بھی دے چکی تھی۔چنانچہ جنرل گریسی کے بعد فوج کی قیادت سنبھالنے والا پہلا پاکستانی جرنیل فیلڈ مارشل ایوب خان علی گڑھ سے پڑھنے کے بعد برطانیہ میں واقع مشہور فوجی اکیڈمی 'رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ'(Royal Military College Sandhurst)  میں داخل ہوا تھا۔سینڈ ہرسٹ کی فوجی اکیڈمی میں کسی ہندوستانی کو داخلہ  ملنا آسان کام نہ تھا۔سٹیفن کوہن اسی بات کو واضح کرتے ہوئے لکھتا ہے:
"انگریز سینڈ ہرسٹ بھیجے جانے والے افراد کا بے حد احتیاط سے چناؤ کرتے تھےاور وفادار ترین،معزز ترین اور سب سے زیادہ مغربی رنگ میں رنگے ہوئے ہندوستانی خاندانوں سے انتخاب کرتے تھے۔پھر ان(خاندانوں)میں سے بھی،خصوصاً مسلمانوں میں سے،وہ ان وائسرائز کمیشنڈ افسروں (وی سی اوز)کے بیٹوں کو شامل کرنے کی کوشش کرتے تھے جنہوں نے نمایاں کارکردگی دکھائی ہو"۔    [31]
شاہی ہندی فوج میں شمولیت کے بعد ایوب خان نے جنگِ عظیم دوم میں بھی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھائے اور برما کے علاقے میانمارمیں تعینات رہا۔ایوب کے بعد جنرل موسیٰ خان نے فوج کی قیادت سنبھالی۔موسیٰ کا باپ افغانی تھا جو ترقی کرتاکرتا'سینئر وی سی او'کے عہدے تک پہنچ گیاتھا۔باپ کی وفاداری کے صلے میں موسیٰ کو بھی 'رائل ملٹری کالج سینڈ ہرسٹ'کے لئے چن لیا گیا،لیکن بعد میں بعض مسائل کی وجہ سے وہ وہاں نہ جاسکا او ر اس نے شمالی ہندوستان میں واقع ایک اور برطانوی ادارے 'انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون' سے تربیت حاصل کی۔1936ء میں موسیٰ نے بطور کپتان وزیرستان میں مجاہدین کے خلاف فوجی آپریشن میں شرکت کی۔ آج بھی شمالی وزیرستان کے علاقے 'بویا'کی پہاڑیوں پر واقع ایک فوجی چوکی کے ساتھ موسیٰ خان کا نام جلی حروف میں لکھا ہوا ہے۔ موسیٰ کے بعد 1966ء سے 1971ء تک جنرل یحییٰ خان نے فوج کی قیادت سنبھالی۔ اس نے بھی 'انڈین ملٹری اکیڈمی دہرہ دون' سے تربیت حاصل کی اور جنگِ عظیم دوم کے دوران اٹلی اور مشرقِ وسطیٰ میں تعینات رہا۔ جنرل ضیاء الحق ، جو 1976ء سے 1988ء تک اس ملک کے سیاہ و سپید کامالک رہا، بھی براہِ راست برطانوی افسروں سے تربیت یافتہ تھا۔ضیاء نے ابتدائی فوجی تربیت دہرہ دون سے حاصل کی اور دوسری جنگِ عظیم کے اواخر میں جنوب مشرقی ایشیاء میں برطانوی کمان تلے اپنی صلاحیتوں کاجوہر دکھایا۔اس کے بعد اعلیٰ تربیت کے لئے اس نے "امریکی کمانڈ اینڈ جنرل اسٹاف کالج فورٹ لیون ورتھ،کینسس"[32](امریکہ) کا رخ  کیا۔60ء کی دہائی کے اواخر میں ضیاء کو اردنی فوج کی تربیت پر مامور کیا گیا۔1970ء میں جب اردنی فوج نے اردن میں پناہ لینے والے فلسطینی مہاجرین کے خلاف فوجی آپریشن کا آغاز کیا تو یہی ضیاء الحق تھا جس نے بطور برگیڈ یئر اردن کی'دوسری فوجی ڈویژن'کی کمان سنبھالی اور ہزار ہا فلسطینی مسلمانوں کا قتلِ عام کیا۔فلسطینی ذرائع کے مطابق اس کاروائی کے دوران 25،000 کے قریب بےگناہ  فلسطینی مسلمان شہید کیے گئے۔برطانوی اکیڈمیوں  میں تربیت پانے والی اس نسل کا آخری اعلیٰ افسر جنرل آصف نواز جنجوعہ تھا۔ جنرل آصف نواز 1991ء سے 1993ء کے دوران پاکستانی بری فوج کا سربراہ رہا۔ اس نے ابتدائی تعلیم راولپنڈی میں واقع سینٹ میری مشنری سکول سے حاصل کی اور ایک موقع پر خود اس بات کا اظہار کیا کہ اس کی پرورش میں سب سے اہم کردار،سکول کے کے دویورپی اساتذہ ،پادری برنز اورمیڈم مے فلینگن کا تھا۔آصف نواز نے بھی ابتدائی فوجی تربیت برطانیہ کے علاقے سینڈ ہرسٹ میں واقع فوجی اکیڈمی سے حاصل کی تھی۔    [33]گویا پانچ سال برطانوی افسروں کی زیرِ کمان رہنے کے بعد تقریباً 42 سال یہ فوج برطانیہ کے منتخب کردہ اور برطانویوں سے تربیت یافتہ افسروں کے ہاتھ میں رہی۔چنانچہ  وہی فوجی طبقہ جس کی مدد سے برطانیہ نے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک صدی سے زائد عرصہ غلام بنائے رکھا اور جس کے بل پر ہندوستان میں جڑ پکڑنے والی ہرجہادی تحریک کو کچلا گیا، 'آزادی'کے بعد بس وہی بدبخت طبقہ آزاد ہوا،جبکہ باقی سب مسلمان،خصوصاً علماء و مجاہدین، ان غداروں کی غلامی تلے رہنے پر مجبور ہوئے۔ تحریکِ مجاہدین کے سرفروش تو پاکستان بننے کے بعد بھی 'دشمن 'ہی سمجھے جاتے رہےاوراس فوج نے ان کا تعاقب اسی طرح جاری رکھا جیسے وہ قبل از قیامِ پاکستان کیا کرتی تھی۔ایک طرف قبائلی علاقہ جا ت میں ایپی فقیر ؒ اور دیگر جہادی قائدین کا پیچھا کیا گیا اور ان کے اجتماعات پر بمباری کی گئی،تو دوسری طرف پاکستان کے شہری علاقوں میں بھی تحریک سے منسلک افراد کا تعاقب جاری رہا۔
ڈاکٹر صادق حسین اسی نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
"جو مجاہدین پاکستان واپس آگئے، وہ یا تو عسرت کی زندگی بسر کرتے ہوئے ولولہ ء جہاد کی سر گزشتوں کو سینوں میں دبائے ہوئے راہیء ملکِ عدم ہوئے،یا حکومت ِ پاکستان کی پولیس کی نگرانی میں زندگی کے ایام گزارتے رہے۔اس کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ وہ انگریزی حکومت سے بر سرِ جنگ رہتے تھے، اس لئے اب بھی دشمن ہی سمجھے جاتے تھے"۔[34]
پس چونکہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی اس فوج کا نصاب ِ تربیت تبدیل نہیں کیاگیا،لہٰذا فوج میں 'دوست 'اور 'دشمن' کی تعریف بھی بنیادی طور پر وہی رہی جو اسے برطانیہ نے قبل از قیامِ پاکستان سکھلائی تھی۔
پاکستانی فوج کی اٹھان میں امریکہ کا کردار[35]
انگریز سے براہِ راست  فیض یافتہ اس نسل کے زیرِ سایہ ایک اور فوجی نسل پروان چڑھ رہی تھی۔اس نسل کی تربیت میں دو عناصر اپنی گہری چھاپ چھوڑ رہے تھے۔ایک طرف تو پہلی نسل کے فوجی افسران وہ سارے علوم و فیوض منتقل ان تک منتقل کر رہے تھے جو انہیں برطانوی افسروں سے ورثے میں ملے تھے۔جبکہ دوسری طرف پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت امریکہ سے پینگیں بڑھانے میں مصروف تھی۔امریکہ نے برطانیہ کے بطن ہی سے جنم لیا تھااس لئے امریکہ نے پاکستان کو اپنے اتحادیوں میں شامل کرتے زیادہ دیر نہیں لگائی۔1954ء میں پاکستان امریکہ کے ساتھ 'باہمی دفاعی تعاون کے معاہدے'پر دستخط کیے جس کے بعد پاکستان کو امریکی امداد ملنے لگی۔اس کے بعد 1955ء میں پاکستان نے سیٹو اور سینٹومیں شمولیت اختیار کر کے خود کو واضح طور پر امریکہ کا چہیتا اتحادی رہا اورامریکہ نے پاکستانی فوج کی تربیت پر بہت باریک بینی سے توجہ دی۔پاکستانی فوج نے امریکی فوج کی تنظیمی ساخت سامنے رکھتے ہوئے اپنی فوج کو ازسرِ نو منظم کیا۔فوج میں کئی ایسی ڈویژنوں کا اضافہ ہوا جو مکمل طور پر امریکی اسلحے سے لیس اور امریکہ کی تربیت یافتہ تھیں۔پاکستان کے بہت سے اعلیٰ افسران تربیت حاصل کرنے امریکہ گئے۔1955ء سے 1958ء کے درمیان (یعنی محض تین سال کے عرصے میں)صرف توپ خانے کے شعبے سے ہی 200 افسر امریکہ گئے۔نیز امریکی افسران خود بھی پاکستان آکر فوج کی تربیتی اکیڈمیوں میں پڑھاتے رہے اور انہوں نے ان اکیڈمیوں کے نصاب میں بھی بہت سی اہم تبدیلیاں کیں۔اس سب کے ساتھ ساتھ پاکستانی افسران کو تربیت حاصل کرنے کے لئے برطانیہ اور دولت ِ مشترکہ کے دیگر ممالک بھی بھیجا جاتا رہا۔ نتیجے میں ایک ایسی نسل وجود میں آئی جو اصلاً برطانوی تاریخ ومزاج کی حامل تھی،لیکن پر گہری امریکی چھاپ بھی موجود تھی ۔اسی حقیقت کو بیان کرتے ہوئے سٹیفن کوہن لکھتا ہے:
"امریکی فوجی ماہرین اسٹاف کالج کوئٹہ تک کے دورے وقتاًفوقتاً کرتے رہے،جو کہ پاکستان کا سب سے پرانا فوجی ادارہ ہے اور آج تک برطانوی خواص کا حامل ہے۔یوں اس کالج کی تعلیم و تربیت میں امریکیوں کا اہم حصہ ہے۔کالج کی اپنی مرتب کردہ تاریخ میں بتایا گیا ہے کہ 1957ء میں امریکہ کی ایک جوہری جنگ کی ماہر ٹیم کا دورہ انتہائی سودمند ثابت ہوااور پرانے نصاب میں ترمیم و نظرثانی پر منتج ہوا"۔
اسی طرح 1956ء میں 'ایس ایس جی' کا رسمی قیام بھی امریکی خصوصی دستوں ((Special Ops. Force کی مدد سے عمل میں آیا،اور امریکی خصوصی دستوں کی طرز پر ایس ایس جی کو پروان چڑھایا گیا۔
1971ء کے بعدامریکہ کی توجہ ویتنام کی طرف پھر گئی اور پاکستان بھی وقتی طور پر اس کے اتحادیوں کی صف سے نکل گیا، لیکن 80ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی امریکہ کو ایک بار پھر روسی خطر ےسے نمٹنے کے لئے پاکستان کی ضرورت پڑی اورپاکستان بھی فوجی و غیر فوجی امداد کے دروازے کھلتے دیکھ کر خوشی خوشی امریکہ کا 'فرنٹ لائن اتحادی' بننے پر تیار ہو گیا۔یوں پاکستانی فوج کو ایک بار پھر امریکی سرپرستی حاصل ہو گئی۔افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد یہ سلسلہ پھر عارضی طور پر کمزور پڑا، لیکن گیارہ ستمبر 2001ء کے واقعات کے بعد پاکستان دوبارہ امریکہ کا'فرنٹ لائن اتحادی' بن گیااور اس کی یہ حیثیت تاحال برقرار ہے۔اس پورے عرصے میں افسروں کی جو دوسری نسل تیار ہوئی،وہ برطانیہ کے ساتھ ساتھ اپنے نئے آقا امریکہ کی بھی وفادار تھی،بلکہ کئی اعتبار سے امریکہ کے زیادہ قریب تھی۔پرویز مشرف کا تعلق اسی نسل سے ہے۔وہ امریکی اثرات کے حامل 'سٹاف کالج کوئٹہ'سے پڑھنے کے بعد برطانیہ کے 'رائل کالج آف ڈیفنس سٹڈیز، لندن' سے پڑھا  اور 1998ء میں پاکستان فوج کا سربراہ بن کر نو سال امریکی مفادات کی خدمت کرنے میں مصروف رہا۔

پاکستانی فوج کی اٹھان میں اسلام کا کردار
ایک بات تو بلا خوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ پاکستانی فوج کے نظریات و عقائد کی تشکیل میں اسلام کا سرےسے کوئی کردار نہیں رہا۔ ہاں ،البتہ قیامِ پاکستان کے بعد اتنی تبدیلی ضرور آئی ہے کہ فوج نے اپنے سپاہیوں اور افسروں کے جذبات ابھارنے اور انہیں لڑ مرنے کا جذبہ دینے کے لئے اسلام کو نہایت ہوشیاری سے استعمال کیا ہے۔فوج کے نظریات کو اسلامی رنگ دینے کی کوشش زیادہ تر ضیاء دور میں ہوئی ہیں،جس کے نمونے پروفیسر کرنل عبد القیوم کی تصنیف: ‘On striving to be a Muslim’ اور برگیڈیئر ایس کے ملک کی تصنیف ‘The Quranic Concept of War’ کی صورت میں دیکھے جاسکتے ہیں۔یہ اور ایسی دیگر تحریرات تفسیر،حدیث،فقہ اور دیگر علومِ دینیہ  پر گہری گرفت رکھنے والے علماء نے نہیں لکھیں،بلکہ خود فوج ہی کے افسران نے لکھی ہیں۔ حُسنِ ظن سے کام لیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ شائد یہ کسی انفرادی فوجی کی نیک نیتی پر مبنی کوشش ہو۔لیکن عملی حقیقت یہ ہے کہ یہ کتب اور اس سے مشابہ تمام کاوشیں فوج کے اساسی نظریات و عقائد اوراس کے طور طریقوں میں کسی قسم کی جوہری تبدیلی لائے بغیر ہی ایک فوجی کو یہ باور کرا دیتی ہیں کہ وہ جہاد جیسی اعلیٰ عبادت میں مصروف ہے، اس پر اس کے افسر کے ہر حکم کی اطاعت کرنا واجب ہے اوراگر وہ مارا جائے تو وہ شہادت کے اعلیٰ رتبے پر فائز ہو گا۔رہی یہ بات کہ اسلام میں جہاد کی تعریف کیا ہے؟ وطن کی خاطر لڑنے کا شرعی حکم کیا ہے؟ جہاد کے شرعی مقاصد ہوتے ہیں؟ایک مسلمان کا دوست کون ہوتا ہے اور دشمن کون؟اطاعتِ امیر کی حدود کیا ہیں اور کن حالتوں میں امیر کا حکم ماننا جائز نہیں رہتا؟ شہید کی شرعی تعریف کیا ہے؟شہادت کی قبولیت کی کیا شرائط ہیں؟شریعت نے جنگ کے کیا آداب و ضوابط مقرر کئے ہیں؟…………… ان سب سوالات کواٹھانے اور ان کا درست شرعی جواب دینے سے مکمل گریز کیا جاتاہے۔مثلاً ،یہ بات پورے دعوے سے کہی جاسکتی ہےکہ پاکستانی فوج کا کوئی افسر وجوان یہ بات نہیں جانتا کہ جہاد کا بنیادی مقصد'اعلائے کلمۃ اللہ'ہوتا ہے۔یعنی یہ کہ توحید کا کلمہ بلند کیاجائے،شرک کا کاتمہ کیا جائے، شریعت نافذ کی جائے اور کافروں کے غلبے و بالا دستی کو مٹاڈالا جائے۔انہی بنیادی شرعی مفاہیم سے جہالت کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی فوج کے افسران کبھی بنگال کے مسلمانوں کو ذبح کرتے ہوئے احد وبدر کی مثالیں دیتے نظر آتے ہیں،تو کبھی عرب مجاہدین کا لہو بہانے والے سپاہیوں کو مجاہد گردانتے دکھائی دیتے ہیں۔چنانچہ 71ء کے سانحے کے دوران جنرل ٹکا خان نے مشرقی گیریزن سے خطاب کرتے ہوئےکہا:
"جہاد اور اسلام سے وابستگی کی بناء پر ہی مٹھی بھر مسلمانوں نے مضبوط ترین مخالفین کو شکست سے دوچار کیا۔بدر،اُحد،خیبر اور دمشق کی جنگیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسلمان کیا کرسکتے ہیں"! [36]
اسی طرح،2004ء میں وانا(وزیرستان)میں عرب و عجم کے مہاجر مجاہدین کے خلاف لڑائی میں مصروف فوجیوں کو مخاطب کرتے ہوئےبرگیڈیئر خٹک نے کہا:
"اصل مجاہد میرے لڑکے ہیں،اصل مجاہد تم لوگ ہو"!
لہٰذا یہ بات پورے یقین سے کہی جاسکتی ہے کہ یہ فوج آج بھی اپنے بنیادی نظریات اور فکر وفلسفے کے اعتبار سے سینڈ ہرسٹ اور دہرہ دون کی فوجی  اکیڈمیوں سے تربیت یافتہ وہی شاہی ہندی فوج ہے۔فرق صرف اتنا ہے کہ اب اس کے اسلامی جذبے کی تسکین کے لئے اس کی بیرکوں کو 'ایمان،تقویٰ  اور جہاد فی سبیل اللہ'جیسے اسلامی نعروں سے مزین کر دیا گیا ہے،حالانکہ یہ آج بھی ان تینوں چیزوں سے اتنی ہی دور ہے جتنی 1857ء میں تھی۔بلکہ یہ بات تو اور بھی زیادہ خطرناک ہے کہ اب اُنہی کفریہ مقاصد کے حصول کے لئے یہ فوج دینی جذبے سے لڑ رہی ہے!
فوج کے اصل نظریے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے سٹیفن کوہن صراحت سے لکھتا ہے:
"آزادی حاصل کرنے والی تمام مسلمان مملکتوں کو مغربی تربیت یافتہ افواج ورثے میں ملیں………… چنانچہ(یہ فوج)کلازوٹ،لڈل ہارٹ اور شیلنگ کے نظریات ترک کرنے سے ہچکچاتی ہیں۔پاکستان آرمی کے بیشتر افسران بھی ان نظریات کو ترک نہیں کریں گے"۔[37]
1971ء کی جنگ میں پاکستانی فوج کا کردار
1971ء کی جنگ نے پاکستانی فوج کی تاریخ میں ایک اور سیاہ باب کا اضافہ کیا۔اس جنگ میں رونما ہونےوالے تکلیف دہ واقعات اس بات کی بیّن دلیل تھے کہ قیامِ پاکستان کے چوبیس سال گزر جانے کے بعد بھی فوج کی ذہنیت ذرّہ برابر نہیں بدلی تھی۔انگریز نے مغربی ہندوستان کے فوجیوں کو پہلی مرتبہ تبھی استعمال کیا تھا جب اسے 1857ء میں بنگال سے پھوٹنے والی بغاوت کچلناتھی۔1971ء میں اہلِ بنگال پرتوڑے جانے والے مظالم بھی درحقیقت نفرت وتعصب کے انہی جذبات کا شاخسانہ تھے جو انگریز نے اس فوج کے خمیر میں 1857ء میں ڈال دیئے تھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد بھی فوج کی قیادت نے اپنانظام انہی جاہلانہ تعصبات کی روشنی میں چلایا جو انگریز نے اس کے دل و دماغ میں راسخ کیے تھے۔پاکستانی فوج میں مختلف قومیتوں کا تناسب کم و بیش وہی رہا جو قبل ازقیامِ پاکستان تھا۔عسکری اُمور کی تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ ، قیامِ پاکستان کے ساٹھ سال بعد،سن 2007ء میں منظر ِعام پر آنے والی اپنی تحقیق میں یہ انکشاف کرتی ہے کہ پاکستانی فوج میں اب بھی فوجیوں کی غالب اکثریت،(یعنی 71 فیصد)کا تعلق صوبہء پنجاب سے ہے،جبکہ سرحد سے 12 فیصد،آزاد کشمیر سے 9 فیصد،سندھ سے 4 فیصد،شمالی علاقہ جات سے 3 فیصد اور بلوچستان سے ایک سےبھی کم فیصد فوجی تعلق رکھتے ہیں۔پھر سندھ سے بھرتی کیے جانے والے فوجیوں میں سے بھی اسّی فیصد سے زائد کا تعلق کراچی اور حیدرآباد سے ہوتا ہے،جبکہ سندھ کے باقی تمام علاقوں کو نہ ہونے کے برابر نمائندگی ملتی ہے۔[38] نیز سٹیفن کوہن 1998ء میں منظرِ عام پر آنے والی اپنی تحقیق میں یہ بات واضح کرتا ہے کہ پاکستانی فوج اب بھی 'جنگجو نسلوں'کے اس خرافاتی فلسفے پر قائم ہے جو انگریز نے ایک صدی سے زائد عرصہ قبل وضع کیا تھا اور اسی کا نتیجہ ہے کہ آج تک بھرتی کے وقت 75 فیصد فوجی پنجاب و سرحد کے ان پانچ اضلاع سے لئے جاتے ہیں جہاں انگریز کی چنیدہ جنگجو نسلیں پائی جاتی ہیں۔  [39]
پاکستان کی فوجی قیادت اور بیورو کریسی کے اسی متعصبانہ رویے کے سبب بلوچستان،سندھ،سرحد اورجنوبی پنجاب میں علیحدگی پسند تحریکوں نے جنم لیا؛اور انہی تعصبات کے سبب مشرقی پاکستان علیحدہ ہوا۔
مشرقی پاکستان کے مسلمانوں سے معاملہ کرتے ہوئے فوج نہ صرف 'جنگجو نسلوں'کے خرافاتی فلسفے پر قائم رہی،بلکہ اس نےبنگالی مسلمانوں کی طرف حقارت سے دیکھنے اور انہیں دبا کر رکھنے کا وہ مکروہ رویہ بھی اپنائے رکھا جو اسے 1857ء کے بعد اپنے آقاؤں سے ورثے میں ملا تھا۔جنگ کے بعد بنگالی مسلمانوں کے خلاف فوج کے مظالم کی جانچ پڑتال اور جنگ میں ناکامی کے ذمہ دار افراد کی نشاندہی کے لئے چیف جسٹس پاکستان جسٹس حمود الرحمان کی سر براہی میں ایک کمیشن ترتیب دیا گیا۔کمیشن کے ممبران میں سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بھی شامل تھے۔اس کمیشن نے سینکڑوں گواہوں کے بیانات سننے اور اپنی تحقیقات مکمل کرنے کے بعدایک رپورٹ تیار کی،جو اس فوج کی مکروہ حرکتوں پر سے پردہ اٹھاتی ہے۔اگرچہ یہ کمیشن اپنی تحقیقات کو منطقی انجام تک پہچانے سے قبل خود اپنے متوقع انجام سے دوچار ہو گیا،لیکن اسکی رپورٹ ہر پاکستانی کی آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے۔



71ء میں بھارت کے خلاف فوج کا'جہاد'![40]
1971ء کے واقعات نے پاکستانی فوج کی مزعومہ عسکری قابلیت کی قلعی کھول دی۔بہت سے اعلیٰ افسران کا حال یہ تھا کہ وہ بھارتی فوج کی پیش قدمی کا سنتےہی اپنے ماتحتوں کو میدان ِ جنگ کے بیچ چھوڑ کر غائب ہو جاتے۔8 دسمبر 1971ء کو میجر جنرل رحیم خان چاند پور میں تعینات اپنی ڈویژن کو چھوڑ کر تنہا فرار ہو گیا،حالانکہ ابھی بھارتی فوج کا حملہ شروع بھی نہیں ہوا تھا۔اسی طرح نویں ڈویژن کی 107 ویں برگیڈ کے کمانڈر برگیڈیئر محمد حیات تک جب یہ خبر پہنچی کہ بھارتی ٹینک جیسور کے دفاعی حصار کو توڑ کر آگے بڑھ رہے ہیں،تو اس نے خبر کی مزید تصدیق کرنے کی بھی زحمت نہ کی اور 6 دسمبر 1971ء کو جیسور کا قلعہ چھوڑ کر اکیلا فرار ہو گیا۔یہ دیکھ کرپیچھے رہ جانے والے دیگر افسر و سپاہی بھی بدنظمی کے ساتھ پسپا ہوئے اور نہ صرف یہ اہم قلعہ،بلکہ اس میں موجود اسلحے کا تمام تر ذخیرہ بھی بلا مزاحمت بھارتی فوج کے قبضے میں چلا گیا۔39 ویں ڈویژن کی 53 ویں برگیڈ کا کمانڈر،برگیڈ یئر محمد اسلم نیازی،9 دسمبر 1971ء کو لکشمی قلعے میں 123 زخمی فوجیوں اور تمام تر بھاری اسلحے اور ذخائر کو پیچھے چھوڑ کرقلعے سے بھاگ گیا اور یہ سب کچھ بھی بلا کسی مزاحمت بھارتی فوج کے ہاتھ لگا۔دوسری طرف مغربی پاکستان کے محاز پر 15 ویں ڈویژن کے کمانڈر میجر جنرل عابد کھان نے بلا مزاحمت ضلع سیالکوٹ کے 98دیہات بھارتی فوج کے قبضے میں جانے دئے۔اسی طرح فوج کی پہلی کور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ارشاد احمد خان نے بھی ضلع سیالکوٹ کی تحصیل شکر گڑھ کے پانچ سو(500)دیہاتوں پر بھارتی فوج کو بغیر لڑے قبضہ کرنے دیا۔ مشرقی پاکستان میں فوج کے قائدِ اعلیٰ جنرل اے کے نیازی کا اپنا حال اس سے بھی بدتر تھا۔ڈھاکہ میں چھبیس ہزار (26،000) فوجیوں پر مشتمل ایک مضبوط دفاعی قوت اور اسلحے و خوراک کے مناسب ذخائر موجود تھے،لیکن محض یہ جان کر کہ بھارتی فوج ایک ہفتے بعد ڈھاکہ پر حملے کرنے کا ارادہ رکھتی ہے،جنرل نیازی کے ہاتھ پاؤں اس بری طرح پھول گئے کہ نہ صرف اس نے بھارتی فوج کے کمانڈر ان چیف کو یہ پیغام بھیج دیا کہ وہ ہتھیار ڈالنے پر تیار ہے،بلکہ اس پر بھی راضی ہو گیا کہ وہ ایک عوامی مقام پر مکتی باہنی کے کارکنوں اور بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں جنرل اروڑا کے سامنے بذات ِ خود ہتھیار ڈالے گا۔یہی نہیں،بلکہ وہ  جنرل اروڑا کا استقبال کرنے خود ائیر پورٹ گیا اور اپنے اے ڈی سی کو حکم دیا کہ پاکستانی فوجی جنرل اروڑا کو سلامی پیش کریں۔یوں مسلمانوں کی تاریخ میں پہلی بار ایسا شرمناک موقع آیا کہ خود کو مسلمان کہلانے والے نوے ہزار مسلح فوجیوں نے کافروں کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے!
71ء میں بنگالی مسلمانوں کے خلاف فوج کا'جہاد'
ایک طرف تو پاکستانی فوج نے مشرک کافروں کے مقابلے میں اس شرمناک بزدلی و بے حمیتی کا مظاہرہ کیا؛لیکن دوسری طرف پوری جنگ کے دوران یہی بدبخت فوج نہتے بنگالی مسلمانوں پر اپنی پوری قوت کے ساتھ یوں ٹوٹی گویا اس کا اصل 'جہاد'یہی ہو۔25 اور 26 دسمبر کی رات کو ڈھاکہ شہر پر بھاری توپخانے سے وحشیانہ بمباری کر کے لا تعداد نہتے شہریوں کو شہید کیا گیا،ستمبر اور اکتوبر کے درمیان دھوم گھاٹ کے علاقے میں مقامی لوگوں کو قطار در قطار کھڑا کر کے فائرنگ سکواڈ کےذریعے قتل کیا گیا،28 مارچ 1971ء کو لیفٹیننٹ جنرل یعقوب خان کے حکم پر کومیلا چھاؤنی میں 17 بنگالی افسروں اور 915 بنگالی سپاہیوں کو ایک ہی دن میں مار ڈالا گیا،سلد اناسی کے علاقے میں بھی 500 لوگوں کو قتل کیا گیا،نمایاں بنگالی مصنفین،ڈاکٹروں،انجنیئروں،پروفیسروں اور سیاست دانوں کو چن چن کرمارا گیا،الغرض اہلِ بنگال کے خلاف مظالم کی ایک سیاہ داستان رقم کی گئی۔بنگلادیشی حکومت کا دعویٰ تھاکہ اس پوری جنگ کے دوران فوج نے 30 لاکھ بنگالی قتل کئے،جبکہ جی ایچ کیو نے 1972ء میں خود چھبیس ہزار(26،000) بنگالیوں کے قتل  تسلیم کئے تھے۔ بنگلادیشی حکومت کایہ دعویٰ اگرچہ مبالغے پر مبنی لگتا ہے،لیکن اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ مارے جانے والوں کی تعداد لاکھوں میں تھی؛اور ایسا کیوں نہ ہو،جبکہ حمود الرحمان کمیشن  کے سامنے پیش ہونے والے ایک گواہ برگیڈیئر اقبال الرحمان شریف کے مطابق،پاکستانی فوج کا ایک نہایت اعلیٰ عہدیدار جنرل گل حسن فوجی مراکز کے دوروں کے دوران سپاہیوں سے پوچھا کرتا تھا کہ:
“How many Bengalis have you shot?”
"تم نے کتنے بنگالی مارے ہیں؟"  
بنگال میں اس فوج کے جرائم یہیں تک محدود نہ رہے،بلکہ 1857ء کی تاریخ دہراتے ہوئے ان بدبختوں نے بہت سی بنگالی بہنوں کی عصمت دری بھی کی۔بنگلہ دیشی حکومت کا دعویٰ تھا کہ کل 2 لاکھ خواتین کی عصمت دری  کی گئی۔ عصمت دری کے واقعات اتنے عام تھے کہ ہر افسر و سپاہی ان سے واقف تھا اور ایک بہت بڑی تعداد ان میں باقاعدہ ملوث بھی تھی۔لیفٹیننٹ کرنل عزیز احمد خان نے حمود الرحمان کمیشن   کے سامنے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ فوجیوں میں یہ جملہ عام تھا کہ:
“When the Commander (Lt. Gen. Niazi) was himself a raper,how could we be stopped”!
"جب ہمارا کمانڈر (جنرل نیازی)خود عزتیں لوٹتا تھا،تو پھر ہمیں کیسے روکا جاسکتا تھا"؟!
اخلاقی انحطاط کا حال یہاں تک پہنچ چکاتھاکہ عین جنگ کے دوران بھی فوجی افسران اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتے تھے۔میجر منور خان نے کمیشن کے سامنے گواہی دیتے ہوئے بتایا کہ 11 اور 12 دسمبر کی درمیانی شب جب مقبول پور سیکٹر میں بھارتی فوج کے گولے پاکستانی مورچوں پر گر رہے تھے،عین اس وقت بھی برگیڈیئر حیات اللہ کے زیرِ زمین  مورچے میں ایک بدکار عورت اس کے ساتھ موجود تھی۔
اسی طرح بنگالی مسلمانوں کے اموال بھی فوج کی دست برد سے نہ بچ سکے۔جنرل راؤ فرمان علی کی گواہی کے مطابق جنرل نیازی نے مشرقی پاکستان میں فوج کی کمان سنبھانے کے فوری بعد کہا کہ:
"میں راشن کی کمی کا ذکر کیوں سن رہا ہوں؟کیا اس علاقے کے لوگوں کے پاس گائے بکریاں نہیں ہیں؟یہ دشمن کی سر زمین ہے، جوجی چاہے چھین لو!ہم(دوسری جنگ ِعظیم کے دوران)برما میں یہی کرتے تھے"۔
جرنیلوں کی اسی تحریض کا نتیجہ تھا کہ فوج کے افسر و سپاہی سرچ آپریشنوں کے دوران خوب لوٹ مار کرتے۔بعض مرتبہ جب بیرکوں کی تلاشی لی گئی تو(حمود الرحمان کمیشن  رپورٹ کے مطابق)وہاں سے ٹی وی،فریج،ایئر کنڈیشنر، ٹائپ رائٹر،سونا،گھڑیاں اور بہت سی دیگر قیمتی اشیاء برآمد ہوئیں۔ایک موقع پر 57 ویں برگیڈ کے کمانڈر برگیڈیئر جہانزیب ارباب،چار کرنل سطح کے افسران اور ایک میجر نے ایک مشترکہ منصوبے کے تحت سراج گاج میں واقع نیشنل بینک کےخزانے سے ایک کروڑپینتیس لاکھ (1،3500،000) روپے چرائے۔اس چوری کا راز تب کھلا جب راستے میں پکسی پل پر تعینات ایک'جے سی او'نے اتفاقاً چوری کا مال لے جانے والی گاڑی کی تلاشی لے لی۔نیز جرنیل خود بھی اس لوٹ مار اور مالی بدعنوانی میں شامل تھے۔کرنل بشیر احمد خان کی گوہی کے مطابق میجر جنرل محمد جمشید کی بیوی ڈھاکہ سے فرار ہوتے ہوئے بہت سی چوری شدہ نقدی مغربی پاکستان لے کر گئی،جبکہ جنرل نیازی تو جنگ کرنے کی بجائےاس پورے عرصے پان کی اسمگلنگ میں مصروف رہا۔ظاہر ہے کہ جن فوجیوں کے 'اسلاف'نے 1857ء میں دہلی کے مسلمانوں کے گھروں سے چارپائیاں تک چرائیں تھیں،اگر ان کے جانشین بھی ایسی خسیس حرکتوں میں ملوث پائے جائیں تو زیادہ حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
حاصل ِکلام
اگرچہ ابھی پاکستانی فوج کی تاریخ کے کئی دیگر سیاہ ابواب کا تذکرہ باقی ہےجو ان شاء اللہ ہم آئندہ کسی موقع پر بیان کریں گے،لیکن جو نکتہ یہاں سمجھانا مقصود تھا ،امید ہے کہ وہ اب تک کی تفاصیل سےبخوبی واضح ہو گیا ہو گا۔فوج کی تاریخ و نظریات جان لینے کے بعد یقیناً کوئی صاحبِ فہم شخص ایبٹ آباد،کراچی،اسلام آباد اور خروٹ آبادمیں فوج کی بہیمانہ حرکات پر حیرت کا اظہار نہیں کرے گا۔نہ ہی اس پر حیرت کا اظہار کرے گا اگر ہم اسے بتائیں کہ اس فوج نے گزشتہ چار سالوں کے دوران سوات سے لے کر وزیرستان تک دس بیس نہیں،کئی سو مساجد و مدارس شہید کئےہیں؛لاکھوں مسلمانوں کو ہجرت پرمجبور کیا ہے،جیٹ طیاروں اور توپخانے کی بمباری سے ہزار ہا معصوم لوگوں کو قتل کیا ہے،ڈرون حملوں کے لئے جاسوسی کر کے سینکڑوں مسلمانوں کا لہو بہانے میں براہِ راست شرکت کی ہے،پوری پوری بستیوں کو جلا ڈالا گیا،بازاروں کو اجاڑا ہے،حق گو علمائے کرام کو برہنہ کرکے ان پر وحشیانہ تشدد کیا ہے،شریعت کے نام لیواؤں کو قطاروں میں کھڑا کر ے گولیوں سے بھونا ہے،چادر و چاردیواری کی حرمت پامال کرکے مجاہدین کی ماؤں ،بہنوں، بیٹیوں کو اغواء کیا ہے،سوات ،بونیر ،درہ آدم خیل اور کئی دیگر علاقوں میں عام آبادی کے گھروں سے سامان لوٹ کر، ٹرکوں میں بھر بھر کر ساتھ لے کر گئے ہیں،امت کے مجاہد بیٹوں کو گلیوں اور چوکوں میں گھسیٹا ہے،آئی ایس آئی کے قید خانوں میں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں،حتیٰ کہ ان کو ذہنی اذیت دینے کے لئے اللہ جل شانہ کی شان میں گستاخی تک کرنے سے دریغ نہیں کیا۔
یقیناً ان میں سے کوئی بات بھی قابل ِ حیرت نہیں۔حیرت تو اس سادہ لوحی پر ہے جس کے سبب اب بھی کوئی صاحبِ ایمان شخص اس فوج کو'اپنی فوج'سمجھتا ہو اور اب بھی اس سے خیرکی امیدیں لگائے بیٹھاہو۔ایک ایسی فوج جسے برطانوی راج اپنا دایاں بازو قرار دیتا ہو،جس نے کبھی دہلی میں علماء و مجاہدین کا خون بہایاہوتوکبھی سوات و قبائلی علاقہ جات میں،کبھی بنگال میں عزتیں پامال کی ہوں تو کبھی بلوچستان میں،کبھی انگریز کو بغداد فتح کرکے دیاہو تو کبھی یہود کو فلسطین ،کبھی خلافت ِ عثمانیہ گرائی ہو تو کبھی افغانی امارت……….
ایسے بد بختوں کو 'اپنا'سمجھنا یا ان سے کسی بھلائی کی امید لگانا چہ معنی دارد؟
یہ فوج تو میری اور آپ کی نہیں،انگریز کے مفادات کی محافظ ہے!انگریزی نظام کی محافظ ہے!انگریزی تہذیب کی محافظ ہے! میرے اور آپ کے دفاع میں لڑنے والے تو وہ گمنام مجاہدین ہیں جو کل تک سید احمد شہید رحمہ اللہ کی قیادت میں لڑتے دکھائی دیتے تھے اور آج ملا عمر اور شیخ اسامہؒ کی قیادت میں۔شاہی ہندی فوج اور سید احمد شہید کے جانشینوں کا معرکہ آج بھی جاری ہے.......
افغانستان و قبائل کے کوہ دامن میں،پنجاب کے میدانوں،سندھ کے ساحلوں اور بلوچستان کے ریگستانوں وپہاڑوں میں۔دہلی و بنگال کے مسلمانوں کا مستقبل بھی اسی معرکے سے وابستہ ہے۔ضرورت اس امر کی ہےکہ ہندوستان تا خراسان،ہر بندہ مومن دوست اور دشمن کو بخوبی پہچان لے،اپنے اور پرائے میں تمیز کرلے....... اور اس جنگ کو اپنی جنگ سمجھتے ہوئے اللہ کے دوستوں سے دوستی اور اللہ کے دشمنوں سے دشمنی نبھانے کا حق ادا کرے۔
اللہ ہمیں حق کو پہچاننے اور اس کی اتباع کرنے کی توفیق دے؛اور باطل کو پہچاننے اور اس سے بچنے کی توفیق دے،آمین!





[1] Colonel J. Mac Donald, Secretary to Government of Bombay, Military Department,29th June 1875,in Paramiltary Papers, 1877, Vol. 62
[2] تفصیل کے لئے دیکھئے :تاریخ ِدعوت و عزیمت ،از سید ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ ،جلد ششم ،حصہ اوّل اور دوم
[3] تاریخ ِدعوت و عزیمت ،از سید ابو الحسن ندوی رحمہ اللہ ،جلد ششم ،حصہ اوّل، ص۴۷۰
[4] انسائیکلو پیڈیا بر ٹینیکا سافٹ وئیر ۱۰
[5] )دی گیریزن سٹیٹ   The Garrison State; The Government, Military & Society in Colonial Punjab,( 1849-1947, by Tan Tai Yong; page 39.
[6] موج ِ کوثر ،از شیخ محمد اکرام، صفحہ ۵۱
[7] دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ ۳۷
[8] ‘ We are Soldiers’,a documentary film series produced by DAWN News Channel.
[9]  دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ 40 تا 45 ،عنوان :پنجاب اور 1857ء کی بغاوت
[10] سیداحمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین ،از ڈاکٹر صادق حسین ،ص:254 (انگریزوں کی فوج میں مجاہدین کاتداخل)
[11] سیداحمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین ،از ڈاکٹر صادق حسین ،ص:467
[12] Forty one Years of India, by Roberts
[13] سیداحمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین ،از ڈاکٹر صادق حسین ،ص:468
[14] سیداحمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین ،از ڈاکٹر صادق حسین ،ص:362(بحوالہ:(454-455 Kaye,  Volume II,  Page
[15] دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ 55
[16]  دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ 57  تا 71
[17] "جنگجو نسلوں"(martial races) کا خرافاتی فلسفہ خود ایک تفصیل طلب موضوع ہے، جس  کو گہرائی سے سمجھنے کے لئے سنگاپور یونیورسٹی کے پروفیسر ٹان ٹائی یونگ کی معروف کتاب:' دی گیریزن سٹیٹ' کا مطالعہ مفید رہے گا۔
[18] یہ بات خارج از امکان نہیں کہ انفرادی سطح پر کچھ فوجیوں نے دینی جذبے سے افغان مجاہدین کی معاونت کی ہو،لیکن فوج نے بحیثیت ادارہ جو پالیسی اپنائی وہ اللہ کے کلمے کو سربلند کرنے کی خاطر نہیں تھی ۔وہ تو دنیاوی مفادات پر مبنی،برطانوی پالیسی کا تسلسل تھی۔
[19] Documentary Film: ‘Blood & Oil,The Middle East in World War I ‘,produced by: INECOM Entertainment, Producer: Marty Callaghan.
[20] مزید دیکھئے : دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ 100-101
[21] دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ  281 اور صفحہ 301
[22] سیداحمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین ،از ڈاکٹر صادق حسین ،ص:362(بحوالہ:(Kaye, Volume II, Page 454-455
[23] سیداحمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین ،از ڈاکٹر صادق حسین ،ص:362(بحوالہ:(Kaye, Volume II, Page 454-455
[24] دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ:90۔ 91
[25] دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ:122
[26] دی گیریزن سٹیٹ،صفحہ 301
[27] 'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص 3
[28] 'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص 3؛ نیز دیکھئے :وکی پیڈیا، عنوان :پاکستان آرمی
[29] Taken from an Introductory & Propaganda video on SSG, produced by ISPR.
[30] 'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص 77 تا 88
[31] 'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص57
[32]   (US Army Command & General Staff College Fort Leaven worth, Kansas)
[33] 'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص57۔ نیز دیکھیئے :انسائیکلو پیڈیا بر ٹینکا سافٹ وئیر 10؛ اور وکی پیڈیا، عنوانات:جنرل موسیٰ خان،جنرل ضیاء الحق،جنرل آصف نواز ،اردن میں سیاہ ستمبر۔
[34] سیداحمد شہید اور ان کی تحریک مجاہدین ،از ڈاکٹر صادق حسین ،ص:769
[35]  'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص65 سے ص 72
[36] 'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص94
[37] 'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص107
[38] Military INC., Inside Pakistan’s Military Economy, by Ayesha Siddiqa, Pages:213 to 216.
[39] 'پاکستان آرمی،تاریخ و تنظیم' از سٹیفن پی کو ہن،ص41
[40]  اس عنوان اور اس سے اگلے عنوان تلے جو معلومات دی گئی ہیں،تقریباً وہ تمام ہی حمود الرحمن کمیشن رپورٹ سے اخذ کی گئی ہیں۔ مزید تفصٰل کے لئے اس رپورٹ کا مطالعہ کر لیا جائے۔